1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور میں بین الاقوامی کانفرنس

تنویر شہزاد5 فروری 2009

Covering each other in an Era of imagined Clashses fo Civilitzations کے عنوان سے ہونے والی اس کانفرنس میں دنیا کے متعدد ممالک شرکت کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/GnOo
تصویر: DW

­دنیا کے مختلف خطوں میں سوچنے سمجھنے والے انسانوں کے لئے یہ ایک سوال بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے کہ کیا موجودہ حالات دنیا کو تہذیبوں کے تصادم کی طرف لے جا رہے ہیں؟ اگر تہذیبوں کے تصادم کے حوالے سے ظاہر کئے جانے خدشات درست ہیں تو پھر ذرائع ابلاغ کواپنا کردار کس طرح ادا کرنا چاہئے؟

اس اہم سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور پاکستان سمیت کئی ممالک کے ماہرین ابلاغیات لاہور میں اکھٹے ہوئے ہیں۔ اس بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام پنجاب یونیورسٹی کےشعبہ ابلاغیات نے انڈونیشیا اور ناروے کی جامعات کے تعاون سے کیا ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا بھرسے آئے ہوئے اساتذہ، صحافی، ماہرابلاغیات، دانشور اورادیب شریک ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ آج کی دنیا میں تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ ایک تصوراتی بات ہے اور اس نظریے کے حوالے سے مختلف لوگ مختلف آراء رکھتے ہیں۔ ڈاکٹرمغیث الدین شیخ کے مطابق بعض لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ تہذیبوں کے تصادم ضرور ہو گا کیونکہ حالات اسی طرف جا رہے ہیں۔ جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہو گا۔ ان کے مطابق تہذیبوں کے تصادم کی باتیں کرنے والے لوگ ایک سازش کے تحت معاشرے کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔

بنگلہ دیش کی ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے استاد شمیم رضا کا کہنا تھا کہ ہرخطے میں کچھ مشترکہ اقتدار ہوتی ہیں اورکچھ اختلافات ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق ذرائع ابلاغ کسی خطے کے مشترکہ پہلوؤں کو اجاگر کر کے ملکوں میں فاصلے کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں لوگوں کو تقسیم کرنے کے بجائے قریب لانے کی کوشش کرنا ہو گی۔ ان کے مطابق جس طرح یورپی ملکوں نے اپنے باہمی اختلافات کے باوجود ایک کم سے کم ایجنڈے پراتفاق کر لیا ہے اور وہ اپنے عوام کی بہتری کے لئے ان مشترکہ اہداف کو حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کے اس عمل کی تقلید کرنی چاہیے اور یہی وہ چیز ہے جو جنوبی ایشیا میں نظر نہیں آتی۔

ناروے سے آئی ہوئی ایک صحافی اورمحققہ ڈاکٹر ایلزبتھ کا کہنا تھا کہ اگر مختلف نقطہ ہائے نظر کو سامنے رکھتے ہوئے رپورٹنگ کی جائے تو اس سے بھی ریاستوں کے اختلافات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی بحران نے ذرائع ابلاغ کے لئے مشکلات پیدا کر دی ہیں اور ساتھ ہی ایک غیر روایتی نیا میڈیا وجود میں آرہا ہے۔


Covering each other in an Era of imagined Clashses fo Civilitzations کے نام سے منعقد ہونے والی اس بین الاقوامی کانفرنس کی افتتاحی تقریب بدھ کے روز ہوئی۔ اس موقع پر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے کہا کہ تہذیبوں کے درمیان تصام محض خیالی نہیں بلکہ حقیقت پرمبنی ہے اور یہ کہ یہ تصادم دنیا کے امیرخاندانوں کے درمیان ہے جو دنیا کے ذرائع پر اپنا کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ڈاکٹر مغیث الدین شیخ اور ادارے کے اساتذہ کو اس اہم موضوع پر کانفزنس منعقد کروانے پر مبارکباد پیش کی۔

اس کانفرنس میں تین گول میزکانفرنسوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ جن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے صحافیوں کے لئے پیدا ہونے والے خطرات، عالمی خبروں کی مقامیت اورمذہبی اقلیتوں کی میڈیا کوریج کو زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ یہ کانفرنس 6 فروری تک جاری رہے گی۔