1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور کا سانحہٴ بیدیاں روڈ: مقدمہ درج، تحقیقات جاری

5 اپریل 2017

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کے علاقے بیدیاں روڈ پر بدھ کی صبح ایک خودکش دھماکے میں، جس کا ہدف مردم شماری کرنے والی ایک ٹیم تھی، پنجاب حکومت کی جانب سے اب تک 6 ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2ajvq
Pakistan | Selbstmordanschlag auf ein Volkszählungsteam in Lahore
تصویر: DW/T. Shahzad

ایک پرائیویٹ وین میں سوار ہو کر مردم شماری کے لیے جانے والے سرکاری اہلکاروں کے اس قافلے پر ایک خود کش بمبار نے حملہ کر کے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ اس سانحے میں ہلاک ہونے والوں میں مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کے 5 جوان بھی شامل تھے۔ اس وقت لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں موجود سانحہٴ بیدیاں روڈ کے 14 زخمیوں میں سے دو کی حالت نازک بیان کی جا رہی ہے۔

مردم شماری جاری رہے گی

پاکستانی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ مردم شماری کرنے والی ٹیموں پر حالیہ حملوں کے باوجود مردم شماری کا عمل جاری رکھا جائے گا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کہا ہے کہ مردم شماری ایک قومی فریضہ ہے جسے ہر صورت مکمل کیا جائے گا۔ 

اہم سول ملٹری رابطہ 

سانحہٴ بیدیاں روڈ کو وقوع پذیر ہوئے 12 گھنٹوں سے زائد وقت ہو چکا ہے لیکن ابھی بھی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سانحے کے ذمہ داروں تک پہنچنے کے حوالے سے کوئی ٹھوس کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ البتہ اس واقعے کے فوراً بعد پاکستان کی سویلین حکومت کے وزیر داخلہ اور پاک فوج کے اعلیٰ حکام میں ہنگامی طور پر رابطہ ہوا ہے، جس میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے سول ملٹری تعاون بڑھانے کے طریقوں پر بات چیت کی گئی ہے۔ 

Pakistan | Selbstmordanschlag auf ein Volkszählungsteam in Lahore
سانحہٴ بیدیاں روڈ میں جان سے جانے والوں میں مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کے پانچ جوان بھی شامل تھےتصویر: DW/T. Shahzad

جائے حادثہ کی صورتحال

بیدیاں روڈ کے علاقے میں ابھی تک دکھ، خوف اور سوگ کی فضا طاری ہے۔ اگرچہ بیدیاں روڈ کو عام ٹریفک کے لیے اب کھول دیا گیا ہے، تاہم جائے حادثہ کو کارڈن آف کر کے شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ سکیورٹی اہلکاروں کے مطابق جائے حادثہ سے خودکش بمبار کے جسمانی اعضاء ملے ہیں، جس سے اُس کی شناخت میں مدد مل سکتی ہے۔ پولیس اہلکار بیدیاں روڈ پر جائے حادثہ سے ملحقہ گلیوں اور بازاروں میں بھی سرچ کر رہے ہیں۔ تفتیشی اداروں نے کئی نجی مقامی اداروں سے مختلف راستوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کر لی ہے۔اس سانحے کی تفتیش کرنے والے حکام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ خود کش بمبار ایک سہولت کار کے ساتھ موٹر سائیکل پر مردم شماری وین کا تعاقب کرتے ہوئے یہاں آیا تھا۔ ملزمان نے اس واقعے سے پہلے اس علاقے کی ریکی کی تھی۔ 

مزید سیکورٹی بڑھانے کا فیصلہ

Pakistan | Selbstmordanschlag auf ein Volkszählungsteam in Lahore
حکومتِ پنجاب نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں ایک بار پھر صوبے بھر میں سکیورٹی اقدامات مزید سخت بنانے کا فیصلہ کیا ہےتصویر: DW/T. Shahzad

ادھر پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بھی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں سانحہٴ بیدیاں روڈ کے بعد کی صورتحال پر غور کیا گیا۔ اس موقعے پر مردم شماری کی ٹیموں کی سکیورٹی بڑھانے اور اس سانحے کے مجرموں تک پہنچنے کے لیے مختلف اداروں میں باہمی تعاون کو بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس حملے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا، جس میں پولیس، انسداد دہشت گردی فورس کے علاوہ حساس اداروں کے اہلکار بھی شامل ہوں گے۔ 

نماز جنازہ، فوجی اعزاز کے ساتھ

اس سانحے میں جاں بحق ہونے والے فوجی اہلکاروں کی نماز جنازہ لاہور کے ایوب سٹیڈیم میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ادا کی گئی۔ اس موقعے پر سانحہٴ بیدیاں روڈ کے دوران جان نثار کرنے والوں کی میتوں کو گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، گورنر پنجاب رفیق رجوانہ، لارڈ میئر مبشر جاوید اور کورکمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل صادق علی نے بھی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ اس موقعے پر کئی صوبائی وزراء اور سول اور عسکری حکام بھی موجود تھے۔ 

مقدمہ درج 

Pakistan | Selbstmordanschlag auf ein Volkszählungsteam in Lahore
سانحہٴ بیدیاں روڈ میں موت کا شکار ہونے والوں کی نمازِ جنازہ کا ایک منظر، مرنے والوں کو فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیاتصویر: DW/T. Shahzad

سانحہٴ بیدیاں روڈ کا مقدمہ بدھ کی شام انسداد دہشت گردی کے مقامی تھانے میں درج کر لیا گیا۔ اس مقدمے میں دھماکہ خیز مواد رکھنے اور دہشت گردی کی واردات کا ارتکاب کرنے کے حوالے سے دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ ادھر وین کے ڈرائیورکو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے اور اس کے موبائل ڈیٹا کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ 

پنجاب میں خوف کی فضا

پنجاب میں وقفے وقفے سے ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں نے عام لوگوں کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے اور ایک خوف کی سی فضا دیکھنے میں آ رہی ہے۔ پنجاب میں محکمہٴ داخلہ کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس حملے کی اطلاع پہلے سے موجود تھی۔ سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر ایسی واضح اطلاع موجود تھی تو پھر اس واقعے کو کیوں نہیں روکا جا سکا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ واقعہ ایک ایسے وقت پر پیش آیا، جب لاہور شہر ہائی الرٹ پر تھا۔

پنجاب حکومت کا موقف

پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ پنجاب میں دہشت گردانہ حملے کی اطلاع موجود تھی لیکن یہ اطلاع بہت واضح نہیں تھی:’’اس کے باوجود ہم نے مردم شماری کی ٹیموں کے لیے ممکنہ حد تک سخت حفاظتی انتظامات کئے تھے۔‘‘ اُن کے بقول جس جگہ پر سانحہ بیدیاں روڈ ہوا ہے، وہ ایک مضافاتی علاقہ ہے اور وہاں سیف سٹی منصوبے کے تحت ابھی سی سی ٹی وی کیمرے نہیں لگائے گئے۔ اُن کے مطابق اس سانحے کے بعد اب پنجاب بھر میں حفاظتی انتظامات کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جماعت الاحرار نامی تنظیم نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے ایک ہمسایہ ملک کے اس واقعے میں ملوث ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔

دہشت گردی، ایک مشترکہ چیلنج

دہشت گردی کے امور پر گہری نظر رکھنے والے ایک تجزیہ نگار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دہشت گردی کی جنگ پورے معاشرے کی جنگ ہے اور سب مل کر ہی اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ان کے بقول اگر دہشت گردوں کے مقدموں کا جلد فیصلہ نہیں ہو گا، اگر ان فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہو گا، اگر سیاسی جماعتیں دہشت گردی کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے اور میڈیا ان خبروں کو اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے استعمال کرتا رہے گا تو پھر دہشت گردی کی روک تھام بڑی مشکل ہو گی۔