1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنانی اَفواج چار عشروں کے بعد پھر سے جنوبی لبنان میں

17 اگست 2006

1967ء کی مشہور چَھ روزہ جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد انتہا پسند فلسطینیوں نے جنوبی لبنان پر کنٹرول حاصل کر لیا اور اِس علاقے کو اسرائیل پر حملوں کے لئے ایک اڈے کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ جب 80ء کے عشرے میں اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کو یہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا تو اِس علاقے کی اکثریتی شیعہ آبادی نے یہاں گویا ریاست کے اندر ریاست بنا لی۔ آج صبح لبنان کی باقاعدہ فوج کے ہزارہا سپاہیوں نے ایک عارضی پُل کے ذریعے دریائے

https://p.dw.com/p/DYKD
جنوبی لبنان میں فائر بندی کے بعد لاکھوں مہاجرین اپنے گھروں کو واپس جاتے ہوئے
جنوبی لبنان میں فائر بندی کے بعد لاکھوں مہاجرین اپنے گھروں کو واپس جاتے ہوئےتصویر: AP

�یتانی کو عبور کیا اور یوں تقریباً چالیس برسوں کے بعد اِس علاقے میں داخل ہوئے، جہاں مقامی آبادی کی جانب سے اُن کا پُرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔

اِس طرح بیروت حکومت نے اقوامِ متحدہ کی گذشتہ ہفتے کی قرارداد کی روشنی میں نئے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل کی جانب پہلا قدم اُٹھایا ہے۔ اِس قرارداد میں جنوبی لبنان میں ملکی اَفواج اور اقوامِ متحدہ کے دَستوں کے پندرہ پندرہ ہزار فوجیوں کی تعیناتی کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان فائر بندی برقرار رکھی جا سکے۔ ایک فوجی ترجمان کے مطابق آج دوپہر تک لبنانی فوج تیس دیہات کا کنٹرول سنبھال چکی تھی جبکہ پورے جنوبی لبنان کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے میں اُسے تین تا چار روز لگ جائیں گے۔

جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوج کا انخلاء بھی جاری ہے اور یہ فوج اپنے نصف زیرِ قبضہ علاقے اقوامِ متحدہ کے دَستے UNIFIL کے حوالے کر چکی ہے۔ دو ہزار فوجیوں پر مشتمل یہ مبصر دَستہ اِس علاقے میں سن 1978ء سے موجود ہے تاہم عالمی سلامتی کونسل کے تازہ فیصلے کےمطابق اِس دَستے کی نفری بڑھا کر 15 ہزار تک لے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ فرانس نے اِس نئے دَستے کی قیادت سنبھالنے اور اپنے دو ہزار فوجی فراہم کرنے کی حامی بھر لی ہے۔ دیگر کئی ملکوں نے بھی اِس دَستے کےلئے اپنے چند سو یا چند ہزار فوجی فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

سوال لیکن یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی متعلقہ قرارداد میں کئے گئے اُس مطالبے کو کیسے پورا کیا جائے گا، جس میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اب تک اَقوامِ متحدہ یا لبنانی حکومت کی طرف سے ایسے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے کہ وہ حزب اللہ کو زبردستی غیر مسلح کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم لبنانی وزیرِ اعظم فُواد سِنیورا نے یقین دلایا ہے کہ جنوبی لبنان کے جن علاقوں سے اسرائیلی فوجی واپس جا رہے ہیں، وہاں لبنان کی مرکزی حکومت کے ہتھیاروں کے سوا اور کوئی ہتھیار نہیں ہوں گے۔

اُدھر اسرائیل کو سب سے زیادہ فکر اِسی بات کی ہے اور اسرائیلی رہنما بار بار یہ کہتے ہوئے دباﺅ ڈال رہے ہیں کہ حزب اللہ کو غیر مسلح نہ کیا گیا تو جنگ پھر سے شروع ہو سکتی ہے۔ اِس حوالے سے اسرائیلی وزیرِ خارجہ Zipi Livni نے کہا، اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ اِس سارے عمل کا آخری اور حتمی نتیجہ حزب اللہ کو کلی طور پر غیر مسلح کئے جانے کی صورت میں برآمد ہو گا۔ اُنہوں نے کہا کہ اُن کے خیال میں یہ بین الاقوامی برادری کے لئے حقیقت کا سامنا کرنے کا لمحہ ہے اور یہ کہ اقوامِ متحدہ کی قرارداد نمبر 1701 پر مکمل عملدرآمد کا نتیجہ اِس خطے میں، لبنان میں ایک تبدیلی کی صورت میں برآمد ہو گا اور تمام فریقوں کے بہتر مستقبل کا باعث بنے گا۔

اِسی دوران آج حزب اللہ کے ایک سرکردہ نمائندے نے روسی اخبار اِسوَیستیا کو بتایا کہ ایران اور شام نے اسرائیل کے ساتھ حالیہ جنگ میں اُن کی تنظیم کو مدد فراہم کی اور اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی کامیابی میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ نمائندے نے کہا کہ حزب اللہ کو اقوامِ متحدہ پر کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اُن کی تنظیم علاقے میں امن دَستے کو قبول کرتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ دَستہ صرف لبنان ہی کی سرزمین پر کیوں تعینات کیا جا رہا ہے، اسرائیل کی طرف کیوں نہیں؟