1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان امن معاہدہ، نئی متحدہ حکومت میں حزب اللہ کو ویتو کا حق

21 مئی 2008

عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس کے بعد لبنانی سیاسی حریف ایک تاریخی معاہدہ پر متفق ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں جنرل مشائل سلیمان کو نیا صدر بھی نامزد کر دیا گیا ہے۔ متوقعے طور پر وہ اتوار کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایئں گے۔

https://p.dw.com/p/E3o3
لبنان میں جاری سیاسی بحران پرعرب لیگ کاہنگامی اجلاس بلوایا گیاتصویر: picture alliance/dpa

لبنان میں حریف سیاسی راہنماوں نے ایک معاہدے پر دستخط کر دئے ہیں جس کے نتیجے میں ملک میں 18مہینوں سے جاری تنازعات کا خاتمہ ہو سکے گا۔

قطر کے دارلحکومت دوہا میں جاری عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ لبنان کے دونوں سیاسی دھڑے ملک کے نئے صدر پر بھی متفق ہو گئے ہیں ۔ واضح رہے کہ گزشتہ نومبر سے ملک میں جاری اقتدار کی رسہ کشی میں لبنان میں ابھی تک کسی کو بھی صدر کے عہدے کے لئے منتخب نہیں کیا جا سکا۔

اتوارکے دن جنرل مشائل سلیمان کوملک کا نیاصدر منتخب کیا جائے گا جو شام نواز شعیہ تنطیم حزب اللہ اور مغرب نواز سنی برسر اقتدارسیاسی دھڑے کے مابین جاری جھرپوں اور چپقلش میں ہمیشہ ہی غیر جانبدار رہے ہیں۔

Eröffnungssitzung des libanesischen Dialog in Katar
عرب لیگ کے اجلاس میں شریک لبنانی وزیر اعظم فواد سینورا سمیت دیگر شرکاتصویر: AP

لبنان کے وزیر اعظم فواد سینورا نے اس ڈیل کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ عرب لیگ مستقبل میں بھی ایسی کانفرنسوں کا اہتمام کرے گی تاکہ لبنان میں امن کے لئے دور رس حکمت عملی تیار کی جائے۔

حزب اللہ نے اس معاہدے کو نہ صرف اپنے لئے بلکہ تمام ملک کے لئے ایک کامیابی قرار دیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ملک میں ایک متحدہ حکومت بنائی جائے گی اورکابنیہ میں کئے جانے والے فیصلوں میں حزب اللہ کو ویٹوکا حق حاصل ہو گا اور بدلے میں حزب اللہ بیروت میں اپنے تمام احتجاجی کمپس ختم کر دے گی۔ اس سے قبل حزب اللہ نے حکومت کے خلاف مرکزی بیروت میں، صدارتی محل کے بالکل سامنے ہی احتجاجی کیمپ بنائے ہوئے تھے۔ جس سے روز مرہ کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔

لبنان کے دونوں اطراف کے راہنما اس بات پر بھی متفق ہو گئے ہیں کہ ملک میں انتخابات کےلئے نئے قواتین بنایئں جایئں گے۔

سعودی عرب ، شام اور فرانس نے اس ڈیل پر لبنانی راہنماوں کو مبارکباد دی ہے اوراسے خوش آئیند قرار دیا ہے۔

Libanon Siegesfeier der Hisbollah in Beirut
حزب اللہ کے حامی خوشیاں منا رہے ہیں، پس منظر میں ان کے راہنما حسن نصر اللہ کی تصویرتصویر: AP

واضح رہے کہ سن دو ہزار چھ کے اواخر میں ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو گیا تھا جب حزب اختلاف حزب اللہ متحدہ حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی تھی ۔ حزب اللہ کا مطالبہ تھا کہ انہیں اقتدار میں مزید طاقت دی جائے اور حکومتی فیصلوں میں ویٹو کا حق دیا جائے۔ لیکن یہ سیاسی بحران اُس وقت مزید شدت اختیار کر گیا جب دو ہفتے قبل حزب اللہ اور حکومتی حامیوں کے مابین خوں ریز جھڑپیں بیروت سے نکل کر تمام ملک میں پھیل گیئں۔

اب امن معاہدے کے بعد بیروت میں زندگی دوبارہ معمول کے مطابق نظرآرہی ہے۔ بیروت میں ایک عام شہری کہتی ہیں کہ وہ بہت خوش ہیں اور امید کرتی ہیں کہ یہ معاہدہ کامیاب رہے گا۔

اگرچہ لبنان میں دونوں طاقتیں، کاغذات کی حد تک قیام امن کے لئے متحد ہوگیئں ہیں لیکن حزب اللہ کے مسلح دھڑے کو غیر مسلح کرنے کی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ یاد رہے کہ حزب اللہ کا مسلح دھڑہ ملک کی فوج سے زیادہ طاقت ور تصور کیا جاتا ہے۔ اور ہمیشہ ہی حکومت کے لئے ایک خطرہ رہا ہے۔