1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان اور شام کے درمیان مذاکرات: ایک نئے دور کا آغاز؟

12 اگست 2008

شام اور لبنان کے درمیان آج سے ایک دو روزہ اجلاس کا آغاز ہو رہا ہے جس کا مقصد دونوں ممالک درمیان کئی برس سے منقطع سفارتی تعلقات بحال کرنااور حالات کو معمول پر لانا بتایا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/Evr2
لبنانی صدر مشیل سلیمانتصویر: AP

اپریل دو ہزار پانچ میں لبنان کے سابق وزیرِاعظم رفیق حریری کے قتل کا الزام لبنان نے شام پر عائد کیا تھا۔ امریکہ ، اسرائیل اور اقوا مِ متحدہ بھی شام پر لبنان میں عدم استحکام پیدا کرنے ، عسکری تنظیموں کی امداد کرنے اور لبنان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔

مگر اس صورتِ حال میں اب تبدیلی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ تیرہ اور چودہ اگست کو شام میں ہونے والے ان مذاکرات کے لیے لبنان کے صدر مشیل سلیمان شام کا غیر معمولی دورہ کر رہے ہیں جہاں وہ شامی صدر بشار الاسد سے ملاقات کریں گے۔ مذاکرات کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے اور کشیدگی کو ختم کرنا بتایا جا رہا ہے۔


لبنان کے ایک سرکاری اہلکار کے مطابق انیس سو اکیانوے میں شام اور لبنان کے درمیان ہونے والا ایک معاہدہ مذکورہ مذاکرات میں سرِ فہرست رہے گا۔ اس معاہدے کے مطابق شام اور لبنان سیاست، معیشت، سیکیورٹی، تعلیم، سائنس اور دیگر شعبوں میں اعلیٰ سطح پر ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ مگر شام اور لبنان کے درمیان تعلقات کبھی اتنے خوشگوار نہیں رہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کو ممکن بنایا جا سکتا۔ دوسری جانب لبنان کی پارلیمان میں اکثریت رکھنے والے شام مخالف نمائندوں کا مطالبہ رہا ہے کہ اس معاہدے کو منسوخ کردیا جائے۔


شام اور لبنان کے درمیان انیس سو پچھتر سے جاری کشیدگی کو کم کرنے میں یہ مذاکرات ایک کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مگر ان مذاکرات کو ممکن بنانے میں ترکی کی ثالثی کے علاوہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو بھی دخل ہے۔ یاد رہے کہ ماضی کے کٹّر حریف اسرائیل اور شام بھی ترکی کی ثالثی میں ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور چلا چکے ہیں۔ مبصرین کی رائے ہے کہ ایران کے ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے اسرائیل کو عرب دنیا میں دوستوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے یا پھر کم از کم وہ بیک وقت کئی محاذ کھولنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔


دوسری جانب لبنانی صدر کے شام کے دورے کی وجہ لبنان کی داخلی سیاست میں ان کی مضبوط تر پوزیشن ہے۔ مشیل سلیمان کی کوششوں سے بالآخر منگل کے روز وزیرِ اعظم فوّاد سینیورا کی قومی یک جہتی کی حکومت نے لبنانی پارلیمان سے واضح اکثریت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا۔ قومی یک جہتی کی اس حکومت میں مزاحمتی عسکری تنظیم حذب اللہ بھی شامل ہے۔ اس تناظر میں لبنان اور شام کے درمیان نئے مذاکرات سے خاصی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں