1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان میں فائر بندی کا تیسرا دن

16 اگست 2006

بدھ کا دِن لبنان میں فائر بندی کا تیسرا دن ہے اور ابھی تمام فریق اِس کی پاسداری کر رہے ہیں۔ اسی دوران لبنانی سرکاری اَفواج کے سپاہیوں نے ملک کے جنوب کی طرف نقل و حرکت شروع کر دی ہے، جہاں وہ ایک مجوزہ بین الاقوامی دَستے کے ساتھ مل کر امن و امان قائم رکھنے کی کوشش کریں گے۔ ادھر جرمنی میں ابھی حکومت نے لبنان کیلئے مجوزہ کسی بین الاقوامی دَستے میں جرمن فوج کی شمولیت کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/DYKF
اسرائیلی دَستے جنوبی لبنان سے واپس جاتے ہوئے
اسرائیلی دَستے جنوبی لبنان سے واپس جاتے ہوئےتصویر: AP

لبنانی فوج اپنے 15 ہزار سپاہیوں کی جنوبی لبنان میں تعیناتی کا سلسلہ جمعرات سے شروع کرنے والی ہے۔ بیروت میں ایک ترجمان نے بتایا کہ یہ سپاہی دریائے لیتانی سے شمال اور جنوب کی طرف پوزیشنیں سنبھالیں گے۔ یہ فوجی مجوزہ بین الاقوامی دَستے کے سپاہیوں کے ساتھ مل کر جنوبی لبنان میں برسوں سے سرگرمِ عمل شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے اسرائیل پر حملوں کو روکنے کے فرائض سرانجام دیں گے۔ واضح رہے کہ مئی سن 2000ء سے جنوبی لبنان کا علاقہ حزب اللہ کے کنٹرول میں چلا آ رہا تھا۔

بتایا گیا ہے کہ راس ناکُورا کی سرحدی چوکی پر اسرائیلی، لبنانی اور اقوامِ متحدہ کے فوجیوں کے ایک اجلاس میں اسرائیلی انخلاء اور اُن کی جگہ لبنانی اور بین الاقوامی دَستوں کی تعیناتی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اُدھر ایک اسرائیلی سرکاری ترجمان نے کہا ہے کہ اگر ایک مسلح تنظیم کے طور پر حزب اللہ کا وجود باقی رہا تو اسرائیل لبنان جنگ جاری بھی رکھ سکتا ہے۔ ترجمان کے مطابق فائر بندی کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی قرارداد نمبر 1701 میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ حزب اللہ سرحدی علاقے سے ہٹا لی جائے گی، اُس کے ہتھیار ضبط کر لئے جائیں گے اور اِس تنظیم کو تحلیل کر دیا جائےگا۔ اخبار یروشلم پوسٹ کےمطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم ایہود اولمرٹ کے دفتر سے ایک سرکاری ترجمان نے کہا کہ حزب اللہ پرغیرمسلح ہونے کےلئے دباﺅ ڈالا جائے ورنہ جنگ کا ایک اور دَور چلے گا۔

اسرائیلی وزیرِ خارجہ Zipi Livni آج نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان کے ساتھ ملاقات میں جنوبی لبنان کےلئے مجوزہ امن دَستے کی تفصیلات پر بات کرنے والی ہیں۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل چاہتا ہے کہ اس کثیر القومی دَستے کو ٹینکوں، توپ خانے اور جنگی ہیلی کاپٹروں سے لیس کیا جائے اور ملائیشیا جیسے ملکوں کو اس دَستے میں شامل نہ کیا جائے۔

لبنان میں پہلے سے اقوامِ متحدہ کے UNIFIL دَستے کے دو ہزار سپاہی تعینات ہیں، جن کی قیادت فرانسیسی جنرل اَلاں پلیگرِینی کر رہے ہیں۔ اِس فرانسیسی جنرل نے کہا کہ ہر شخص اِس قرارداد کو جلد از جلد عملی شکل دینے کا خواہاں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اسرائیلی اَفواج جلد از جلد جنوبی لبنان خالی کرنا چاہتی ہیں اور لبنان کی باقاعدہ مسلح افواج جتنی جلد ممکن ہو سکے، وہاں پوزیشنیں سنبھالنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اور اُن کے خیال میں یہ سارا عمل ایک ہفتے یا دَس روز کے اندر اندر مکمل ہو جائے گا۔

اِس کے برعکس ایک سرکرہ اسرائیلی فوجی افسر نے بُدھ کے روز پارلیمانی اراکین سے باتیں کرتے ہوئے یہ کہا کہ اسرائیلی فوجی یونٹ ممکنہ طور پر کئی مہینوں تک لبنان میں موجود رہیں گے، اُس وقت تک جب تک کہ اقوامِ متحدہ کے دَستے اپنی پوری نفری کے ساتھ وہاں تعینات نہیں ہو جاتے۔

شاید ایسے ہی خدشات کے پیشِ نظر فائربندی کے باوجود لوگ لبنان چھوڑ کر نکل رہے ہیں۔ آج صبح بھی 655 لبنانی مہاجرین دو بحری جہازوں کے ذریعے قبرص پہنچ گئے۔ نکوسیا کی وَزارتِ خارجہ کے مطابق اِن میں سے زیادہ تر لبنانی نژاد یورپی شہری تھے۔

اِدھر بدھ کو ہی جرمن شہر Bayreuth میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی قیادت میں موجودہ مخلوط حکومت کے چوٹی کے قائدین لبنان کےلئے کسی مجوزہ بین الاقوامی دَستے میں جرمنی کے کردارپر تبادلہِء خیال کر رہے ہیں۔ تاہم حکومتی ترجمان تھوماس شٹیگ کے مطابق یہ اجلاس یہ حتمی فیصلہ کرنے کےلئے منعقد نہیں کیا جا رہا کہ آیا اقوامِ متحدہ کی قرارد کو عملی شکل دینے کے سلسلے میں جرمنی بھی کوئی کردار ادا کرے گا۔ جرمنی پہلے یہ دیکھے گا کہ اِس مجوزہ دَستے کے فرائض اور دائرہء کار کا کیا خاکہ وضع کیا جاتا ہے۔