1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان: پولیس نے 75 جنسی غلام خواتین کو بچا لیا

امتیاز احمد1 اپریل 2016

شام کی خانہ جنگی کے بعد سے وہاں انسانی اسمگلر سرگرم ہیں۔ شامی خواتین کو ہمسایہ ملکوں میں اسمگل کرتے ہوئے ان سے جسم فروشی کا کام بھی لیا جا رہا ہے۔ لبنان پولیس نے ملک کا ایک ایسا ہی سب سے بڑا جنسی نیٹ ورک پکڑ لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IO05
Symbolbild - Weinende Frauen in Bahrain
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh

لبنان کے سکیورٹی حکام کے مطابق پولیس نے ملک میں اب تک کا سب سے بڑا جنسی نیٹ ورک پکڑ لیا ہے۔ اس دوران کم از کم ایسی 75 خواتین کو بچا لیا گیا ہے، جنہیں جسم فروشی پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ بچائی جانے والی زیادہ تر خواتین کا تعلق ہمسایہ ملک شام سے ہے۔

لبنان کی داخلہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق انہیں زبردستی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور مارا پیٹا بھی جاتا تھا۔ اسمگلروں کے ہاتھوں سے بچائی جانے والی کچھ خواتین کے جسموں پر زخموں کے نشانات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

لبنانی سکیورٹی فورسز کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے، ’’شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے جسم فروشی اور سیکس ٹریفکنگ میں ملوث یہ اب تک پکڑا جانے والا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔‘‘

Hijab-Debatte
تصویر: ISNA

آئی ایس ایف کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’یہ کارروائیاں بیروت کے شمال میں لبنان کے پہاڑی علاقے میں کی گئی ہیں۔ اس دوران پورے گروپ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘‘

جاری ہونے والے بیان میں مزید بتایا گیا ہے، ’’ان خواتین کو جسمانی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی تشدد کا بھی نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ انہیں مختلف جنسی کارروائیاں کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا تھا جبکہ ان کی غیر اخلاقی تصاویر بھی کھینچی گئیں اور بعدازاں انہیں تقسیم بھی کیا گیا۔‘‘

لبنانی حکام کے مطابق اس نیٹ ورک میں ملوث مجموعی طور پر دس مردوں اور آٹھ خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق شامی خانہ جنگی سے پہلے بھی شامی خواتین کو جسم فروشی کے لیے لبنان اسمگل کیا جاتا تھا لیکن شامی حالات خراب ہونے کے بعد ان کی تعداد میں واضح اضافہ ہو گیا ہے۔

ایک لبنانی عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شامی جنگ سے سب سے زیادہ خطرہ شامی خواتین اور بچوں کو ہے، ’’سب سے زیادہ قیمت انہیں ادا کرنا پر رہی ہے۔‘‘