1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا: فریقین متحدہ حکومت کے لیے تیار ہیں، اقوام متحدہ

امتیاز احمد9 اکتوبر 2015

اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ کئی ماہ سے جاری مشکل مذاکرات کے بعد لیبیا کی دونوں حریف حکومتوں کے نمائندے ایک متحدہ حکومت بنانے کے لیے تیار ہو گئے ہیں لیکن اس کی حتمی منظوری دونوں پارلیمان اور لیبیائی عوام دیں گے۔

https://p.dw.com/p/1GlVF
Libyen Kämpfe gegen IS in Sirke
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Hamza Turkia

افریقی اور بدامنی کے شکار ملک لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب بیرنارڈینو لیون کا آج نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مذاکرات میں شامل دو حریف حکومتوں نے نئی ’قومی متحدہ حکومت‘ کے لیے اپنے اپنے امیدواروں کے نام بھی فائنل کر دیے ہیں۔ اس پیش رفت کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے لیبیا کو دوبارہ جوڑنے کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ لیبیا سن دو ہزار گیارہ میں معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد سے افراتفری کا شکار ہو چکا ہے۔

اس ملک میں سن 2014 سے دو متوازی حکومتیں قائم ہیں۔ مذہبی گروپوں کی حمایت یافتہ حکومت دارالحکومت طرابلس پر کنٹرول رکھتی ہے اور وہاں سے اپنی حکومت چلا رہی ہے جبکہ مغرب کی حمایت یافتہ حکومت ملک کے مشرق میں اپنی حکومت قائم کر چکی ہے۔

اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’بیرنارڈینو لیون نئی قومی حکومت کی تشکیل کا اعلان کر رہے ہیں لیکن بہت زیادہ کام ابھی باقی ہے۔‘‘ مذاکرات میں شریک دونوں حریف حکومتوں کے نمائندوں نے تو اس پر اتفاق کر لیا ہے لیکن ان کی منظوری دونوں پارلیمان سے بھی ضروری ہے۔

لیون کا مزید کہنا تھا کہ نئی قومی حکومت کے وزیراعظم کا نام فائز سراج ہو گا اور ان کا تعلق طرابلس پر کنٹرول رکھنے والی اسلام پسند حکومت سے ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں امید ہے کہ یہ لسٹ کارآمد ثابت ہو گی۔ وزیراعظم کے تین نائب ہوں گے، جو ملک کے مشرقی، مغربی اور جنوبی حصوں کی نمائندگی کریں گے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ تمام افراد ایک ٹیم کے طور پر کام کریں گے اور اس ٹیم کی تشکیل کوئی آسان کام نہیں تھا۔

مجوزہ نائب وزیراعظم موسیٰ الکونی کا کہنا تھا کہ ’’مشکل ترین مرحلے کا آغاز اب ہوا ہے‘‘۔

وزراء کی فہرست میں دو خواتین بھی شامل کی گئی ہیں۔ ممکنہ نئی حکومت کو کئی مشکل چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ تیل کی دولت سے مالا مال لیبیا کی معیشت تقریباﹰ تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے جبکہ ملک میں درجنوں ملیشیا گروپ وجود پا چکے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مغرب اس وجہ سے بھی لیبیا میں جلد از جلد کسی متحدہ حکومت کا قیام چاہتا ہے کہ یہ ملک یورپ پہنچنے والے مہاجرین کے لیے دروازہ بن چکا ہے۔ لیبیا میں برطانوی سفیر پیٹر مِلٹ نے لیبیا کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس فیصلے کے پیچھے کھڑے ہوں تاکہ ملک میں امن قائم ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا، ’’میری نظر میں اس سے بہتر اور متبادل کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔‘‘