1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا میں افریقی مہاجرین کی حالت زار

عاطف توقیر10 اگست 2016

بوکے نوفیساز نائجیریا سے یورپ پہنچنے کے ارادے سے گھر سے نکلی تھیں، مگر لیبیا میں پھنس گئیں۔ وہ مصراتہ میں مہاجرین کے حراستی مرکز میں اپنی آنکھوں سے ایک بھیانک زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے چکنا چور ہوتے خواب بھی دیکھ رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JfNM
Rettungsaktion von Ärzte ohne Grenzen Mittelmeer
تصویر: DW/K. Zurutuza

نائجیریا سے چلنے والی نوفیساز اب لیبیا کے مغربی شہر مصراتہ میں ایک پرانے اسکول، جسے اب مہاجرین کی جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے، میں قید ہیں۔ ایسے افراد جو غیرقانونی طور پر لیبیا میں داخل ہوتے ہیں، انہیں اس جیل میں رکھا جاتا ہے۔ اس حراستی مرکز کے نگران محمد کاہُل کا کہنا ہے، ’ان کی حکومتوں کو ان کی کوئی فکر نہیں، یہ لوگ مریں یا جئیں۔‘‘

افریقہ سے اپنی آنکھوں میں بہتر زندگی کے خواب سجائے ہزاروں افراد لیبیا اس نیت سے پہنچتے ہیں کہ کسی طرح اس شورش زدہ ملک سے وہ بحیرہء روم عبور کر کے یورپ پہنچ جائیں گے، مگر سینکڑوں افریقیوں کا یہ سپنا ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

کاہُل کا کہنا ہے کہ یہ افراد انتہائی غریب ہیں، جو اپنے اپنے ممالک چھوڑ کر لیبیا یا تو اس لیے پہنچتے ہیں کہ انہیں شاید تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک میں ہی کوئی نوکری مل جائے گی، یا پھر بعد میں صرف کچھ ہر وقت ’یورپ‘ پکارتے دکھائی دیں گے۔ ان افراد کی نگاہوں میں یورپ جیسے زمین پر کسی ’جنت‘ کا نام ہے۔

ایسے بےشمار افراد لیبیا میں پھنسے ہوئے ہیں، جن کی حکومتیں انہیں بھول چکی ہیں۔ ان میں سے بہت سے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ لیبیا میں اس زندگی سے کہیں بہتر زندگی تو وہ اپنے اپنے آبائی ممالک میں گزار رہے تھے۔

Afrika Migration Flüchtlinge
سینکڑوں افریقی مہاجرین لیبیا میں موجود ہیںتصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia

بوکے نوفیساز سات روز تک ایک کار میں سفر کر کے لیبیا پہنچی تھیں، مگر وہ سیاسی اور قبائلی بنیادوں پر منقسم اس ملک میں جاری شورش اور وہاں سرگرم انسانوں کے اسگلروں اور لٹیروں میں پھنس کر رہی گئیں۔

نوفیساز کی خواہش ابتدا میں یہی تھی کہ وہ بھی کسی ٹوٹی پھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جنوبی یورپ پہنچ جائیں گی، تاہم جلد ہی ان کا ارادہ بدل گیا۔

اس 26 سالہ نائجیرین خاتون کا کہنا تھا، ’’ان کشتیوں کو دیکھ کر میرا سارا اعتماد جاتا رہا۔ میں جوانی میں نہیں مرنا چاہتی۔‘‘

یہی سوچ کر اس خاتون نے لیبیا ہی میں کام ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا۔ مصراتہ لیبیا کا تجارتی مرکز ہے اور ہزاروں دیگر مہاجرین کی طرح نوفیساز نے بھی وہاں کام شروع کر دیا۔ وہ سو ڈالر ماہانہ کے بدلے صفائی کا کام کرتی تھیں، مگر ایک شب پولیس نے ان کے گھر پر دستک دی اور پوچھا کہ ان کا خاوند کہاں ہے۔ ’’میں نے جواب دیا، وہ کہیں باہر گئے ہوئے ہیں۔ بس پھر سکیورٹی فورسز نے میرے گھر کی ہر چیز اٹھا لی۔ میرا پاسپورٹ، میرا موبائل فون اور میرے پیسے۔ انہوں نے مجھے بہت پیٹا۔‘‘

مصراتہ کے اس حراستی مرکز میں ایک دوسری خاتون کا کہنا تھا کہ اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ’’مہاجرین بے بس ہوتے ہیں۔ وہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے بربریت یا طاقت کے استعمال پر کچھ بھی نہیں کر سکتے۔‘‘

نوفیساز نے بتایا کہ انہیں ان کے گھر سے حراست میں لے کر اس سابقہ اسکول میں بنائے گئے حراستی مرکز میں پہنچا دیا گیا، جہاں 20 دیگر خواتین بھی موجود تھیں۔ ’’ہمیں پیاس لگتی ہے، تو ہم بس ٹائلٹ میں جا کر وہیں سے پانی پی سکتے ہیں۔‘‘

بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت نے حال ہی میں اس اسکول میں مہاجرین کے لیے گدے فراہم کیے ہیں۔ اس تنظیم کے ایک نمائندے کے مطابق، ’’ان مہاجرین کے پاس ٹوتھ برش تک نہیں کہ اپنے دانت صاف کر پائیں۔ انہیں ایک طرح سے ہر چیز کی ضرورت ہے۔ ان کے پاس نہ کپڑے ہیں، نہ ٹھیک خوراک ،اور نہ ہی ان کے آبائی ممالک کی حکومتوں کو ان کی رتی بھر پرواہ ہے۔‘‘