1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا میں سبھی دھڑے ممکنہ جنگی جرائم کے مرتکب، اقوام متحدہ

مقبول ملک16 نومبر 2015

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ شمالی افریقی ریاست لیبیا کے خونریز تنازعے کے سبھی فریق بین الاقوامی قوانین کی ایسی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں، جو ممکنہ طور پر جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1H6fj
Libyen Kämpfe gegen IS in Sirke
تصویر: picture-alliance/dpa

جنیوا سے پیر سولہ نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق عالمی ادارے نے کہا ہے کہ لیبیا کے تنازعے میں شریک جملہ فریقوں کی طرف سے اغوا، ایذا رسانی اور عام شہریوں کی ہلاکت کے ایسے واقعات کا ارتکاب کیا جا رہا ہے، جو ممکنہ طور پر جنگی جرائم قرار دیے جا سکتے ہیں۔

لیبیا میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن UNSMIL اور اسی عالمی ادارے کے انسانی حقوق کے دفتر کی طرف سے آج پیر کے روز جاری کردہ ایک مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام اور عراق میں وسیع علاقوں پر قابض عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ کے جہادی اس شمالی افریقی ملک کے متعدد علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد وہاں اپنی گرفت مضبوط بنا چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق (داعش کی) یہ جہادی طاقتیں وہاں ’وسیع پیمانے پر زیادتیوں کی مرتکب ہو رہی ہیں‘۔ اس رپورٹ کے مطابق، ’’ان شدید زیادتیوں میں عوامی سطح پر لیکن فوری بنیادوں پر عام افراد کے قتل کے وہ واقعات بھی شامل ہیں، جن میں متعلقہ افراد کو ان کے مذہب یا سیاسی ہمدردیوں کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘‘

لیبیا میں اقوام متحدہ کے سپورٹ مشن UNSMIL اور عالمی ادارے کے ہیومن رائٹس آفس نے اس رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ اس شمالی افریقی ملک میں سابق آمر معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے چار سال بعد بھی یہ ملک دو حریف حکومتوں کے مابین خونریز تنازعے کے زد میں ہے۔

ان متحارب حکومتوں میں سے ایک ملک کے مشرق میں قائم ہے، جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے اور دوسری ایک ایسی نام نہاد اور خود ساختہ حکومت ہے، جس کی فورسز کو طرابلس پر کنٹرول حاصل ہے۔ ’’اس کے علاوہ لیبیا میں کئی ایسے مسلح گروپ بھی ہیں، جو ان دونوں حکومتوں میں سے کسی نہ کسی حکومت کے حامی ہیں اور اپنی حمایت یافتہ حکومت کی کامیابی کے لیے مسلح سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں