1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماؤنٹ ایورسٹ: بھارتی کوہ پیماؤں کے زندہ بچنے کی امید ختم

امتیاز احمد24 مئی 2016

امدادی کارکنوں کے مطابق دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کی کوشش کرنے والے دو بھارتی کوہ پیماؤں کے زندہ بچنے کے امید تقریباﹰ ختم ہو گئی ہے۔ یہ دونوں گزشتہ ویک اینڈ سے لاپتہ ہیں۔

https://p.dw.com/p/1ItjB
Mount Everest Bergsteiger Symbolbild
تصویر: Reuters/N. Chitrakar

نیپال میں بھارتی سفارت خانے نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاپتہ ہونے والے دونوں کوہ پیما ان کے شہری ہیں۔ پریش ناتھ اور گوتم گوش اس وقت لاپتہ ہوئے، جب وہ چوٹی کے قریب تھے۔

لاپتہ ہونے والے یہ دونوں کوہ پیما اس چار رکنی ٹیم کا حصہ تھے، جس کا ایک کوہ پیما سبھاش پال اتوار کے روز بیمار ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو گیا تھا جبکہ چوتھی خاتون کوہ پیما کو امدادی ٹیموں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے بچا لیا تھا اور اب وہ ہسپتال میں ہے۔

نیپال میں ٹریکنگ کیمپ کے وانگشو شیرپا کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم ان کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کی خیریت کے لیے دعاگو ہیں لیکن وہ بہت بلندی پر ہیں اور انہیں لاپتہ ہوئے دو دن ہو چکے ہیں۔ اب یہ امید کم ہی ہے کہ وہ زندہ ہوں گے۔‘‘

شیرپا کا کہنا تھا کہ بھارت کے تین عہدیدار دارالحکومت کھٹمنڈو پہنچ چکے ہیں اور تاکہ سرچ آپریشن میں معاونت فراہم کر سکیں جبکہ بدھ کے روز ایک دوسری ٹیم بھی تلاش شروع کر دے گی۔

حالیہ چند دنوں کے دوران سبھاش پال ایسے تیسرے کوہ پیما تھے، جو اتنی اونچائی پر پہنچنے کے بعد بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ اس سے پہلے ایک آسٹریلوی اور ایک ڈچ کوہ پیما ایسے ہی ہلاک ہوئے تھے۔

آٹھ ہزار میٹر بلندی کے بعد کوہ پیما ’’ڈیتھ زون‘‘ میں انٹر ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہوا میں آکسیجن کا لیول انتہائی کم رہ جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بعض کوہ پیماؤں کو ارتفاعی مرض لاحق ہو جاتا ہے۔

رواں سیزن کے دوران ابھی تک تین سو پچاس کوہ پیما ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر چکے ہیں اور ان میں ایک سو چالیس غیرملکی شامل ہیں لیکن ملیسا آرنٹ وہ پہلی خاتون ہیں، جنہوں نے پیر کے روز آکسیجن کی مدد کے بغیر اس چوٹی کو سر کیا ہے۔

اس خاتون کوہ پیما کا اپنی اس کامیابی کے بعد کہنا تھا، ’’ایک عرصے سے میرا یہ مقصد تھا کہ میں اضافی آکسیجن کے بغیر ماؤنٹ ایورسٹ سر کروں، میں اب خود کو انتہائی خوش قسمت تصور کرتی ہوں۔‘‘