1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مالاکنڈآپریشن میں 47 مزید شدت پسند ہلاک

فریداللہ خان، پشاور15 مئی 2009

پاکسانی فوج نے کہا ہے کہ مالاکنڈ آپریشن میں آپریشن کے دوران گزشتہ روز سے اب تک 47 عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں۔ اس دوران تین فوجی بھی ہلاک ہوئے۔

https://p.dw.com/p/HrCa
سوات میں فوج کا گشتتصویر: AP

پاکسانی فوج نے کہا ہے کہ مالاکنڈ آپریشن میں آپریشن کے دوران گزشتہ روز سے اب تک 47 عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں۔ اس دوران تین فوجی بھی ہلاک ہوئے۔ فوجی ترجمان میجر جنرل اطہرعباس نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ حالیہ آپریشن میں اب تک 980 شدت پسند مارے جاچکے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے ایک ویڈیو بھی دکھائی تھی جس میں سوات میں طالبان کے ٹھکانوں اور ان کے اسلحے کے ذخیروں کی نشاندہی کی گئی۔ میجر جنرل اطہرعباس کا کہنا تھا کہ فوج سوات کے علاقے مینگورہ کی جانب پیش قدمی کر رہی ہے جہاں سے طالبان فرار کی کوشش میں ہیں۔

اُدھر ہفتہ کو بھی کرفیو میں وقفے کے دوران متاثرہ علاقوں سے ہزاروں افراد نقل مکانی کرتے ہوئے محفوظ مقامات کی طرف چل پڑے جبکہ سرحد حکومت نے جمعہ کو ضلع بونیر کے علاقے ڈگرکو محفوظ اور عسکریت پسندوں سے پاک قرار دیتے ہوے لوگوں کو واپس جانے کی اجازت دے دی جس کے بعد متعدد خا ندان واپس جارہے ہیں۔

پاکستانی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد کہتے ہیں:’’آپریشن کے ختم ہونے کا ٹائم فریم دینا مشکل ہے۔ آپریشن ختم ہونے کے بعد باودی سرنگیں صاف کرنے کا مرحلہ شروع ہوگا۔ ہم نہیں چاہتے کہ لوگ گھر کا دروازہ کھولیں اور دھماکہ ہوجائے۔ اس لئے کلیئرنس پر وقت لگے گا۔"

لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد کا کہنا ہے کہ یہ ایک مشکل گھڑی ہے۔ سوات کے شہری بھی پاکستانی ہیں اور سب نے مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہے۔

Pakistan Flüchtlinge aus dem Swat Tal
بچے پناہ گزین کیمپ میں کھانا حاصل کرنے کے لئے قطار بنائے کھڑے ہیںتصویر: AP

مینگورہ اورنواحی علاقوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کیلئے انتظامیہ اور فلاحی اداروں نے لنڈاکی چیک پوسٹ پر ایک سوسے زائد بسیں پہنچادی ہیں۔ تاہم ان بسوں تک پہنچنے کیلئے بھی لوگوں کو کئی میل پیدل سفر طے کرنا پڑا۔ سیکیورٹی فورسز کے ذرائع کاکہناہے کہ کرفیو میں نرمی سے قبل عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے دوران55 سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں جبکہ ان کے کئی ٹھکانے بھی تباہ کیے گئے ہیں۔ اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ بعض شہری علاقوں میں اب بھی طالبان کاقبضہ ہے جنہوں نے شہریوں کوڈھال بنارکھا ہے۔

کرفیو میں نرمی کے دوران شہریوں کے متاثرہ علاقوں سے نکل جانے کے بعد فیصلہ کن آپریشن کی توقع ہے۔ سیکورٹی فورسز نے مینگورہ کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے نواحی علاقوں سے عسکریت پسندوں کو پیچھے دھکیل دیاہے۔ ملک بھر کے سیاسی اورسماجی حلقوں سمیت کیمپوں میں رہائش پذیر متاثرہ افراد بھی جلد سے جلد فیصلہ کن آپریشن کرنے کامطالبہ کررہے ہیں۔

BIldergalerie Flüchtlingskrise im Swattal Flüchtlinge per Auto
متاثرہ علاقے سے نقل مکانی کرتے ہوئے افرادتصویر: picture-alliance/ dpa

اُدھر ضلع بونیر میں سیکیورٹی فورسز نے ڈگر اور گمبیلا کو عسکریت پسندوں سے خالی کرکے پیر بابا گوکند اورسلطان وس کی جانب پیش قدمی کی ہے جہاں سے شدید جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کو گن شپ ہیلی کاپٹرز اور بھاری توپخانے کی مدد بھی حاصل ہے۔

مالاکنڈ ڈویژن کے بعض علاقوں میں کرفیو میں نرمی کی وجہ سے ہزاروں لوگ مردان، نوشہرہ اورچارسدہ کے کیمپوں میں پہنچ رہے ہیں۔ ان کیمپوں میں پہلے سے اشیائے ضرورت کی شدید قلت ہے جبکہ مزید لوگوں کی آمد سے ان کی مشکلات میں اضافے کاخدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اوروزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی سمیت وزیراعلیٰ سرحد امیر حیدر خان ہوتی نے ان کیمپوں کادورہ کیاہے جنہوں نے متاثرین سے ہمدردی اوریکجہتی کااظہار کرتے ہوئے ہر ممکن امداد فراہم کرنے کا یقین دلایاہے۔