1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مالاکنڈ آپریشن اور اندرونِ ملک مہاجرین کے مسائل

رپورٹ: شامل شمس ، ادارت: کشور مصطفیٰ20 مئی 2009

کیا حکومت نے فوجی آپریشن سے پہلے کوئی ایسا لائحہ عمل تیّار کیا تھا جو آپریشن کے بعد اندرونِ ملک مہاجرین کے مسائل کا پیشگی احاطہ کرتا؟

https://p.dw.com/p/HtZT
حکومت کو اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی کی امید ہی نہیں تھی، ایمل خٹک، سنگی ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشنتصویر: picture alliance / landov
Pakistan Flash-Galerie
سماجی تنظیموں کے مطابق نقل مکانی کرنے والے افراد کے مسائل کے حوالے سے حکومت اور ان کے درمیان مشاورت نہ ہونے کے برابر ہےتصویر: AP

پاکستان کے شمال مغربی صوبہِ سرحد کے مالاکنڈ ڈویژن میں جاری فوجی آپریشن کو قریباً ایک ماہ کا عرصہ ہوگیا ہے۔ طالبان عسکریت پسندوں اور حکومتِ پاکستان کے درمیان اس جنگ میں جہاں عسکریت پسندوں کے ہلاک ہونے کی مصدقہ اور غیر مصدقہ خبریں سامنے آتی رہتی ہیں وہاں افواجِ پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کی اطلاعات بھی موصول ہوتی رہتی ہیں۔ مگر ایک بات جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اس جنگ میں اگر کسی کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے تو وہ شورش ذدہ علاقوں میں بسنے والے عام شہریوں کا ہوا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ طالبان کے حامی ہیں اور نہ ہی ان کو پاکستانی ریاست پر ساٹھ برس سے حکمرانی کرنے والے افراد کی پالیسیوں سے کوئی خاص محبت ہے۔

Pakistan Flash-Galerie
کلعدم مذہبی تنظیمیں اب نئے کارکنوں کی تلاش شروع کریں گی، ڈاکٹر اے ایچ نیّر، ایس ڈی پی آئیتصویر: AP


اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ایک ماہ سے جاری اس جنگ کے نتیجے میں کم از کم ساڑھے چھ لاکھ نقل افراد مکانی کر چکے ہیں۔ بعض زرائع اس تعداد کو دس لاکھ سے زائد بتا رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق گزشتہ کئی دہائیوں میں اندرونِ ملک حجرت کرنے والوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔

کیا حکومت نے فوجی آپریشن سے پہلے کوئی ایسا لائحہ عمل تیّار کیا تھا جو آپریشن کے بعد اندرونِ ملک مہاجرین کے مسائل کا پیشگی احاطہ کرتا؟

اندرونِ ملک مہاجرین کے ساتھ کام کرنے والی تنظیم سنگی ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن سے وابستہ ایمل خٹک کا کہنا ہے کہ حکومت کو اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی کی امید ہی نہیں تھی۔

دوسری جانب اسلام آباد میں مقیم معروف سماجی کارکن اور دانشور حارث خلیق کا کہنا ہے کہ حکومت سے تمام تراختلافات کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ آپریشن شروع کرنے سے قبل حکومت مہاجرین کے لیے کچھ زیادہ نہیں کر سکتی تھی۔

Pakistan Flash-Galerie
موجودہ بحران عسکری قیادت کی غلط اور ناکام پالیسیوں کا نتیجہ ہے، حارث خلیق، دانشورتصویر: AP


جہاں تک سول سوسائٹی کی تنظیموں کا تعلق ہے وہ نقل مکانی کرنے والے افراد کے مسائل کے حل کے لیے تن دہی سے مصروفِ عمل ہیں۔ مگر بین الاقوامی امدادی اداروں، حکومتِ پاکستان اور سماجی تنظیموں کے علاوہ وہ لوگ اور تنظیمیں بھی ان افراد کے ساتھ کام کر رہی ہیں جو طالبان کی حمایتی ہیں۔

اسلام آباد میں واقع ادارہ برائے پائدار ترقی یا ایس ڈی پی آئی سے وابستہ، قائدِ اعظم یونی ورسٹی کے سابق پروفیسر اور سماجی کارکن ڈاکٹر اے ایچ نیّر کا موقف ہے کہ مالاکنڈ فوجی آپریشن اور اس سے متاثر ہونے والے افراد کے کیمپوں میں اب یہ مذہبی تنظیمیں اپنی حمایت بڑھانے اور بے روزگار اور بد حال افراد کو اپنی تنظیموں میں بھرتی کرنے کا کام کریں گی۔