1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مالاکنڈ مہاجرین کی درست تعداد پر اختلاف

رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور، ادارت: شامل شمس21 مئی 2009

سرحدحکومت اور اسپیشل سپورٹ گروپ کے درمیان مالاکنڈ آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں ایسے وقت میں اختلافات سامنے آئے ہیں جب لاکھوں مہاجرین امداد کے لئے در بہ در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/HuqD
کئی لوگوں نے دو سے تین مراکز میں اندراج کرایا ہےتصویر: AP

صوبائی حکومت کے ترجمان میاں افتخارحسین کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد25 لاکھ 38 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جب کہ مزید لوگ بھی نقل مکانی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے ہر خاندان میں آٹھ افراد رکھے ہیں جب کہ مرکزی حکومت چھ افراد فی خاندان کا حساب کرتی ہے اور اس وجہ سے اعداد و شمار میں بھی فرق آتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس میں والدین بھی شمار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے والدین کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا موقف ہے کہ سب جانتے ہیں کہ پختونوں کے خاندان میں کم از کم آٹھ افراد ہوتے ہیں اور یہ تعداد اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔

Pakistan Flash-Galerie
پختونوں کے خاندان میں کم از کم آٹھ افراد ہوتے ہیں اور یہ تعداد اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے، سرحد حکومت کا موقفتصویر: AP

ان اعداد و شمار کی تردید کرتے ہوئے اسپیشل سپورٹ گروپ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد کاکہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 19 اور 20 لاکھ کے قریب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعداد زیادہ نظر آنے کی کئی وجوہات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کئی لوگوں نے دو سے تین مراکز میں اندراج کرایا ہے۔ ان کے مطابق جو لوگ پہلے سے یہاں موجود تھے انہوں نے بھی امداد کے حصول کے لئے اندراج کرانا شروع کر دیا جب کہ کئی مقامی لوگ جو پہلے سے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں انہوں نے بھی رجسٹریشن کرائی ہے۔

سرحد حکومت اور اسپیشل سپورٹ گروپ کے اعداد و شمار میں چھ سے سات لاکھ تک فرق سامنے آیا ہے تاہم نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے جب کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق شورش ذدہ علاقوں میں اب بھی لاکھوں افراد نقل مکانی کے لئے کرفیو میں نرمی کے منتظر ہیں۔

دوسری جانب سیکورٹی فورسز کا مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن بھی جاری ہے۔ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بونیر کادورہ کر کے زمینی آپریشن کا جائزہ لیا ہے۔ فیلڈ کمانڈ نے انہیں تفصیلات سے آگاہ کیا۔ شدید جھڑپوں کے بعد فوج نے ڈگر سے ایلئی تک کا علاقہ عسکریت پسندوں سے خالی کروایا۔ ان جھڑپوں میں فوج کے ایک اہلکار سمیت پانچ عسکریت پسند ہلاک ہوئے جن میں طالبان کے مقامی کمانڈر ابوطارق بھی شامل ہیں۔

BIldergalerie Flüchtlingskrise im Swattal Talibankämpfer
مینگورہ میں طالبان عسکریت پسند اب بھی فوج کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

سیکورٹی فورسز کو بونیر کے علاقے سلطان وس،گوکنددرہ اور پیر بابا میں اب بھی مزاحمت کا سامنا ہے جب کہ اسی طرح مینگورہ شہر کے اکثریتی علاقوں پر بدستور عسکریت پسندوں کا قبضہ ہے۔ سیکورٹی فورسز نے مینگورہ کا چاروں طرف سے گھیرا تنگ کردیا ہے۔ تازہ دم دستے مینگورہ سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع علاقہ قمبر پہنچ گئے ہیں۔

ادھر سوات کے علاقے کالام میں مقامی لوگوں نے علاقے میں داخل ہونے والے طالبان کی کوشش ناکام بناتے ہوئے آٹھ افراد کو پکڑ لیا ہے۔ کالام سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پچاس عسکریت پسندوں کے گروپ نے علاقے میں گھسنے کی کوشش کی جس پر مقامی لوگوں نے جمع ہو کر ان کامقابلہ کیا۔

عسکری زرائع کے مطابق مالاکنڈ آپریشن کے دوران اب تک 1106سے زیادہ عسکریت پسندہلاک جب کہ پانچ کو حراست میں لیا گیا ہے۔ آپریشن میں سیکیورٹی فورسز کے 58 اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

ادھر قبائلی علاقے مومند ایجنسی میں قبائلی جرگے کے بعد مقامی عسکریت پسند کمانڈ یار سید نے اپنے پانچ ساتھیوں سمیت خود کو انتظامیہ کے حوالے کردیا ہے۔ جرگے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے میں عسکریت پسندوں کو پناہ دینے والے آٹھ قبائلیوں کے گھر مسمار کردیئے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں