1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ماں بننے پر پچھتاوا‘، جرمنی میں شدید بحث

افسر اعوان27 جون 2016

کیا یہ ممکن ہے کہ ماں بننے پر بھی پچھتاوا ہو؟ یہ سوال سب سے پہلے ایک اسرائیلی محقق کی طرف سے اٹھایا گیا تھا، مگر جرمنی میں اس پر بحث کافی طویل ہو چکی ہے۔ اس موضوع پر بات اب تک ایک طرح سے شجر ممنوعہ تھی۔

https://p.dw.com/p/1JELz
تصویر: Colourbox

ماہر عمرانیات اورنا ڈوناتھ کے مطابق، ’’اسرائیل میں یہ بحث ایک ہفتے میں ہی تھم گئی تھی مگر جرمنی میں یہ کئی مہینوں سے جاری ہے۔‘‘ ان کی کتاب ’رِگرَیٹِنگ مدر ہُڈ‘ Regretting Motherhood یعنی ماں بننے پر پچھتاوا، 2015ء میں شائع ہوئی تھی۔

معاشرے میں پائے جانے والے عام تصور کے برعکس کہ اگر کسی خاتون نے بچہ پیدا نہ کیا تو ’وہ پچھتائے گی،‘ اورنا ڈوناتھ نے 23 ایسی خواتین سے انٹرویو کیے جو اپنے بچوں سے محبت تو کرتی تھیں مگر ان کے بقول سچ یہ تھا کہ وہ بچے پیدا نہ کرنے کو فوقیت دیتیں۔

اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد جرمنی میں بھی کئی کتابیں اسی موضوع پر لکھی جا چکی ہیں، جن میں سے ایک ’دا لائی آف میٹرنل ہیپی نَیس‘ بھی ہے، یعنی ’مادری محبت کا جھوٹ‘۔ اس کتاب کی مصنفہ سارہ فِشر ہیں۔ اس کے علاوہ اخبارات میں قریباﹰ ہفتہ وار کالم، ٹیلی وژن پر مباحثوں اور شوز کے علاوہ ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ ’رِگرَیٹِنگ مدر ہُڈ‘ بھی اسی بحث کا حصہ ہیں۔

2001ء میں ’مِتھ آف دا جرمن مدر‘ یعنی ’جرمن ماں کے بارے میں افسانوی باتیں‘ نامی تجزیہ لکھنے والی محققہ باربرا وِنکن کہتی ہیں، ’’جرمنی میں ایک تہائی سے زائد ایسی خواتین جنہوں نے یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی ہوتی ہے، وہ بے اولاد رہتی ہیں۔ یہ صورتحال پورے یورپ میں منفرد ہے۔‘‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے وِنکن کا کہنا تھا کہ ڈوناتھ کی تحقیق نے جرمنی میں ایک نازک معاملے کو چھیڑا ہے کیونکہ یہ تحقیق ’’ایک ایسے معاشرے میں بچہ پیدا کرنے کی خوشی کے بارے میں سوال اٹھاتی ہے، جو سب کچھ کرنے کی توقع صرف ماں سے ہی کرتا ہے، اور جہاں مائیں بھی اپنے بارے میں سب کچھ کا تقاضا خود سے ہی کرتی ہیں۔‘‘

Kind Mutter Eltern Familie Symbolbild
تصویر: Fotolia/Pavel Losevsky

جرمنی میں یہ خیال بہت مضبوط ہے کہ بچوں کی بہبود ان کی ماں ہی کے مرہون منت ہے، نہ کہ یہ ان کے ارد گرد موجود معاشرے یا بچوں کے والد کی ذمے داری بھی ہے، اور یہ بات خواتین کے کیریئر کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ وِنکن کہتی ہیں، ’’یہاں (جرمنی میں) فرانس کی طرح کی صورت حال نہیں ہے، جہاں آپ حمل کے دوران شیمپین کا ایک گلاس بھی پی سکتی ہیں، یا بچوں کو دودھ پلانے کا عرصہ مختصر کر کے آپ بچے کی ولادت کے تین ماہ بعد ہی واپس کام پر بھی جا سکتی ہیں۔‘‘

جرمنی میں اگر کوئی ماں بچے کی ولادت کے بعد ایک برس سے کم عرصے میں واپس کام پر آ جائے تو اسے ایک ایسی ماں سے تشبیہ دی جاتی ہے جس نے اپنے ذاتی اہداف کی خاطر اپنا بچہ چائلڈ کیئر میں پھینک دیا ہو۔ جرمنی میں عام طور پر میٹرنٹی چھٹیاں ایک برس کی ہوتی ہیں اور بعض اوقات تین برس تک کی بھی چھٹی لی جا سکتی ہے۔

حیران کُن بات یہ ہے کہ بچے کی تربیت کے سلسلے میں باپ کو بھی شامل کرنے کے خیال کی زیادہ پذیرائی نہیں ہو سکی۔ جرمنی کے DIW اکنامک انسٹیٹیوٹ کی ایک حالیہ اسٹڈی کے مطابق فُل ٹائم کام کرنے والی ماؤں کو ہر روز گھر پر بھی تین گھنٹے تک کام کرنا پڑتا ہے اور مرد شاید پوری زندگی میں بھی ایسا نہیں کرتے۔

اسی دوران جرمنی میں بعض خواتین نے بچے پیدا نہ کرنے کے اپنے حق کو استعمال کرتے ہوئے اور اپنے پیشے اور مامتا کے کردار کے درمیان جنگ سے بچتے ہوئے خود کو ’ماؤں کی جنگ‘ سے مکمل طور پر دور رکھنے ہی کو فوقیت دی ہے۔