1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متبادل نوبیل انعام چارخواتین کے لئے

امجد علی1 اکتوبر 2008

بدھ کے روز سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہولم میں اعلان کیا گیا کہ اِس سال کا متبادل نوبیل انعام کہلانے والا اعزاز پانچ شخصیات کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جن میں سے چار خواتین ہیں۔

https://p.dw.com/p/FSNh
ڈاکٹر مونیکا ہاؤزر متبادل نوبیل انعام کی حقدار قرار دئے جانے پر خوشی کا اظہار کر رہی ہیںتصویر: AP

اِس انعام کی حقدار قرار دی جانے والی خواتین میں جرمن شہر کولون کی ڈاکٹر مونیکا ہاؤزر بھی شامل ہیں۔ خواتین کے اَمراض کی ماہر اُنچاس سالہ ڈاکٹر مونیکا ہاؤزر کا تعلق بنیادی طور پر سوئٹزرلینڈ سے ہے، اُن کے پاس پاسپورٹ اٹلی کا ہے، جبکہ وہ آباد ہیں، جرمن شہر کولون میں۔

گذشتہ پندرہ برس سے وہ دُنیا بھر کے خطرناک ترین ملکوں میں جنسی تشدد کے ہولناک تجربے سے گذرنے والی خواتین اور لڑکیوں کی مدد کر رہی ہیں۔ 1992ء میں اُنہیں پتہ چلا کہ بوسنیہ میں خواتین کی بڑے پیمانے پر آبروریزی کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اِن رپورٹوں نے مونیکا ہاؤزر کے ذہن میں زبردست ہلچل پیدا کر دی۔

Amy Goodman erhält alternativen "Nobelpreis"
ایک نئے طرزِ صحافت کی بنیاد ڈالنے والی امریکی صحافی ایمی گڈمین کے لئے متبادل نوبیل انعامتصویر: AP

’’مجھے تب شدید غصہ آیا تھا۔ ایک تو بوسنی خواتین پر بیتنے والے حالات یعنی جنگ میں اُنہیں اجتماعی آبروریزی کا نشانہ بنانے پر۔ پھر مَیں عالمی پریس سے بھی سخت ناراض تھی، جس نے اِن واقعات کو جان بوجھ کر اُچھالا۔ کوئی تفصیل ایسی نہیں تھی، جسے بیان کرنے سے وہ ہچکچائے ہوں۔ میرے خیال میں یہاں بھی خواتین کو آلہء کار بنایا گیا، اُنہیں استعمال کیا گیا۔ تب مَیں نے کہا کہ مَیں اِس سلسلے کو روکنے کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کروں گی۔‘‘

ڈاکٹر مونیکا ہاؤزر نے کیا یہ کہ ایک سال بعد ہی بوسنی شہر زے نیچا میں جا کر متاثرہ خواتین کےعلاج معالجے کا ایک مرکز قائم کر دیا۔ اُن کی یہی سرگرمیاں اُن کے لئے وجہِ شہرت بنتی گئیں۔ 1993ء ہی میں اُنہیں جرمن ٹیلی وژن ARD کی جانب سال کی بہترین خاتون کا خطاب دیا گیا۔

بعد کے برسوں میں اور بھی اعزازات اُن کے حصے میں آئے، یہاں تک کہ اب اُنہیں متبادل نوبیل انعام کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ یہ اعزاز ملنے پر اپنے ردعمل میں اُن کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنے کام کو اور بھی زیادہ مؤثر انداز میں آگے بڑھا سکیں گی۔

Krishnammal Jagannathan gewinnt alternativen "Nobelpreis"
جنوبی بھارت میں پسماندہ طبقات کے لئے سرگرم 80 سالہ خاتون کرشنامل جگناتھنتصویر: AP

متبادل نوبیل انعام کی حقدار قرار دی جانے والی چار خواتین میں ڈیموکرسی ناؤ جیسے خبروں کے غیر جانبدار پروگرام کی بنیاد رکھنے والی امریکی صحافی اَیمی گُڈمَین اور صومالیہ کی حقوقِ انسانی کے لئے سرگرم کارکن آشا حاجی کے ساتھ ساتھ جنوبی بھارت کی مدر تریسا کہلانے والی اَسی سالہ سماجی کارکن کرشنامل جگناتھن بھی شامل ہیں۔

یہ انعام ملنے کی خبر سنتے ہی کرشنامل کا سب سے پہلا دھیان اپنے اُس منصوبے کی طرف گیا، جس میں وہ جنوبی بھارت کے پسماندہ باشندوں کے لئے پانچ ہزار مکانات بنانا چاہتی ہیں۔ اِن مکانات کے لئے جتنی رقم ضروری تھی، وہ اُن کے پاس نہیں تھی، ایسے میں متبادل نوبیل انعام اُن کے لئے ایک حدائی تحفے کے مترداف ہے۔

’’مَیں دعا کر رہی تھی کہ کہیں سے مجھے اتنے مالی وسائل مل جائیں کہ مَیں یہ مکانات تعمیر کروا سکوں۔ میری دعائیں سنی گئی ہیں، تبھی مجھے یہ تحفہ ملا ہے۔‘‘

کرشنامل جگناتھن نے اپنی زندگی دلیت کہلانے والے اُن بھارتی باشندوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر رکھی ہے، جو معاشرے میں ہر اعتبار سے پسماندہ زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ تین لاکھ ڈالر مالیت کا انعام چاروں خواتین میں برابر برابر تقسیم ہو گا۔ کرشنامل اپنی بزرگی کے باعث اِس انعام کی آٹھ دسمبر کو سویڈن کی پارلیمان میں منعقد ہونے والی تقریبِ تقسیم میں شریک نہیں ہو سکیں گی۔