1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

محدود پیمانے پر افغان مہاجرین کی ملک بدری جائز ہے: جرمنی

صائمہ حیدر
21 فروری 2017

جرمن  وزیر داخلہ تھوماس دے میزیئر نے پانچ وفاقی جرمن ریاستوں کی جانب سے افغان مہاجرین کی ملک بدری روکنے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ محدود پیمانے ہر افغان مہاجرین کی ملک بدری جائز ہے۔

https://p.dw.com/p/2XxWi
Deutschland Demo gegen die Abschiebung von Flüchtlinge nach Afghanistan in Berlin
افغان مہاجرین کی ملک بدریوں کے خلاف مظاہروں کے باوجود یورپی یونین نے ان کی وطن واپسی کے لیے کابل حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا ہےتصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com/O. Messinger

تھوماس دے میزیئر نے پیر کی شام اپنی معمول کی تقریر میں واضح کیا کہ محدود پیمانے پر افغان مہاجرین کی ملک بدری قابلِ جواز ہے۔ جرمن وزیرِ داخلہ نے مزید کہا، ’’ افغانستان میں سلامتی کی صورتِ حال پیچیدہ ضرور ہے لیکن وہاں محفوظ مقامات بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ملک کے شمالی علاقے اور دارالحکومت کابل۔‘‘

دے میزیئر نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا ،’’ بنیاد پرست اسلامی طالبان کا ہدف ریاستی نمائندے، پولیس، سفارت خانے اور مغربی طرز کے ہوٹل ہیں۔ عام آبادی بھی اِس دہشت گردی کی صورتِ حال سے اگرچہ متاثر ہوئی ہے لیکن وہ طالبان کا براہِ راست نشانہ نہیں اور یہ بنیادی اور بڑا فرق ہے۔‘‘

 جرمنی سے افغان تارکینِ وطن کی ملک بدری متنازعہ ہو چکی ہے کیونکہ بہت سے ماہرین افغانستان کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ گزشتہ برس اکتوبر میں کابل حکومت کے ساتھ افغان باشندوں کو وطن واہس بھیجنے کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ اِس معاہدے کے بعد جرمن وزارتِ داخلہ  نے  جرمن وفاقی ریاستوں سے اُن افغان پناہ گزینوں کی ترتیب وار ملک بدری کرنے کو کہا تھا جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔

Afghanistan abgeschobene Flüchtlinge aus Deutschland kommen in Kabul an
گزشتہ برس دسمبر میں بڑے پیمانے پر اافغان مہاجرین کی پہلی ملک بدری عمل میں لائی گئیتصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

گزشتہ برس دسمبر میں بڑے پیمانے پر ایسی پہلی ملک بدری عمل میں لائی گئی۔ تاہم چند ہفتے پہلے جرمنی کی پانچ ریاستوں نے افغان تارکینِ وطن کی ملک بدری پر عمل در آمد روک دیا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والے تھوماس دے میزیئر نے جرمن ریاستوں کی اِس پالیسی پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ  چند روز قبل سب نے مل بیٹھ کر یہ فیصلہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ افغان مہاجرین کی ملک بدریوں کے خلاف مظاہروں کے باوجود یورپی یونین نے ان کی وطن واپسی کے لیے کابل حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا ہے۔ یورپی یونین جن شرائط کے تحت افغانستان کو مالی معاونت فراہم کر رہی ہے اس میں یہ شق بھی شامل ہے کہ کابل حکومت اپنے شہریوں کو واپس قبول کرے اور غیر قانونی طور پر یورپ کی جانب مہاجرت روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرے گی۔