1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

US/120508

14 مئی 2008

جرمن شہر Oberhausen میں منعقدہ دنیا کے مختصر فلموں کے سب سے پرانے میلے میں اِس بار تقریباً 430 فلمیں نمائش کے لئے پیش کی گئیں۔ اِس سال سیاسی فلمیں اِس میلے کا خاص طور پر موضوع تھیں۔

https://p.dw.com/p/DzOP
تصویر: Boros/IKF/White

حال ہی میں جرمن شہر اوبر ہاؤزن میں دنیا بھر کا مختصر فلموں کا سب سے پرانا میلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اِس سال سیاسی فلمیں اِس میلے کا خاص طور پر موضوع تھیں۔ دَس مختلف پروگراموں اور مباحثوں میں ماضی کی مختصر فلموں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ مختصر سیاسی فلم میں تاریخ کے مختلف اَدوار میں کیا کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔ مجموعی طور پر تقریباً 430 فلمیں دکھائی گئیں۔

وہیں موجود تھے، امریکی ہدایتکار Alonzo Crawford بھی، جن کے خیال میں جب فلم کے آخر میں فلم کی تیاری میں معاونت کرنے والوں کے نام دکھائے جاتے ہیں تو اُس کے ساتھ ہی فلم ختم نہیں ہو جاتی۔ وہ کہتے ہیں:

’’ اُس زمانے میں مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ ہمارے سماجی شعور کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں فلم کتنا طاقتور ذریعہ ہے۔ لیکن اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ فلمیں دیکھنے کا روایتی انداز شعور کو بیدار کرنے کا ایک ذریعہ ہے تو یہ غلط ہو گا۔ آج تک کسی بھی شخص کو محض اِس وجہ سے آزادی نہیں مل گئی کہ اُس نے کوئی فلم دیکھ لی تھی۔ اِس مقصدکے حصول کے لئے مکالمت اور تبدیلی کے ایک پورے عمل کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔‘‘

اِس ہدایتکار کی بنائی ہوئی فلم "Crowded" میں امریکی شہر بولٹی مور کی ایک جیل کے بارے میں بتایا گیا تھا، جہاں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی رکھے گئے تھے۔ اِس فلم کی نمائش کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں قیدیوں کی تعداد نمایاں طور پر کم کر دی گئی۔ کرافورڈ بتاتے ہیں:

’’یہ جیل قیدیوں سے اتنی زیادہ بھری ہوئی تھی کہ وہاں ناشتہ تقسیم کرنے کا کام صبح ساڑھے چھ بجے شروع ہوتا تھا اور دوپہر بارہ بجے تک جاری رہتا تھا۔ تب لیکن دوپہر کے کھانے کے لئے قطار بننا شروع ہو جاتی تھی، اتنی بھری ہوئی تھی یہ جیل۔‘‘

Lars Henrik Gass, Leiter des Kurzfilmfestivals Oberhausen
اوبرہاؤزن شارٹ فلم فیسٹیول کے ڈائریکٹر ہَینرِیک گاستصویر: Afraa A. Mohamad

مختصر فلموں کے اوبرہاؤزن فلمی میلے کے انچارج Henrik Gass بھی ایسی فلموں کے حق میں ہیں، جو محض کاروباری مقاصد کو پیشِ نظر رکھ کر نہ بنائی جائیں بلکہ جو کسی بحث مباحثے کی بنیاد بنیں۔

’’ میری یقیناً یہ خواہش ہے کہ اِس طرح کے فلمی میلوں کے نتیجے میں ثقافتی بحث مباحثے کا آغاز ہو۔ اِس بارے میں بحث شروع ہو کہ اب سے دَس بیس یا تیس سال بعد ثقافت کیسی ہو گی یا اِسے کیسا ہونا چاہیے۔ سب سے بڑھ کر یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ جِس طرح کی فلمیں دیکھ دیکھ کر ہم جوان ہوئے ہیں، کیا تب ابھی ان کا وجود ہو گا۔‘‘

64 سالہ الونزو کرافورڈ واشنگٹن کے ایک نواحی علاقے میں رہتے ہیں اور ایسی فلمیں بناتے ہیں، جن میں اقلیتوں اور استحصال زدہ طبقوں کے مسائل کی ترجمانی کی گئی ہوتی ہے۔ اِن لوگوں کے حقوق کے لئے لڑنے کا اُن کا انداز یہ ہے کہ وہ اِن کے مسائل زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔

اُن کی تازہ ترین فلم کا نام ہے، Winter Wheat، جس میں ڈومینیکن ری پبلک کی دو ایسی عام سی خواتین کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو امریکہ میں گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں اور اِس صورتِ حال سے فرار کی راہیں تلاش کرتی ہیں۔ نہ صرف کرافورڈ کی فلموں کا انداز پہلے کے مقابلے میں بہت بدل گیا ہے، بلکہ سیاسی فلموں کا پورا منظر نامہ ہی بدل چکا ہے۔

Filmszene The Viewer Kurzfilm Kino Kabaret 2007
مختصر جرمن فلم"The Viewer"کا ایک منظرتصویر: Mathieu Vilcot/Karim Aît-Gacem

امسالہ میلے میں ساٹھ اور ستّر کے عشرے کی فلمیں بھی دکھائی گئیں، جن سے پتہ چلتا تھا کہ اُس دور کی فلمیں زیادہ جذباتی ہوا کرتی تھیں۔ اِن فلموں کو دیکھنے کے بعد ناظرین فطری طور پر اُن میں دکھائے گئے کرداروں کے ساتھ ہمدردی محسوس کرنے لگتے تھے۔ آج کل کی فلموں میں تھوڑا سا فاصلے پر رہ کر مسائل اور حقائق کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ میلے کے انچارج Gass بتاتے ہیں:

’’ آج کے دَور میں لوگ کسی اجتماعی رَو میں بہہ جانے کی بجائے انفرادی طور پر اپنی کوئی رائے بناتے ہیں۔ اب مشاہدے کا انداز کچھ ایسا ہے کہ اُس میں ذرا فاصلے پر رہ کر طنزیہ اور منفرد انداز میں چیزوں کو دیکھا جاتا ہے۔‘‘

پاکستان میں مختصر دورانیے کی فلموں کے منظر نامے کے بارے میں معروف پاکستانی فلمساز اور صحافی حسن زیدی، جو پاکستان کے سب سے اہم بین الاقوامی فلمی میلے کارا فلم فیسٹی وَل کے ڈائریکٹر بھی ہیں، بتاتے ہیں کہ چند سال پہلے تک اِس طرح کی فلموں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی لیکن کارا فلمی میلے اور نئے ٹیلی وژن چینلز کی آمد کے ساتھ ہی اِس میدان میں بہت کام ہونا شروع ہو گیا ہے۔