1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مراد علی شاہ کو درپیش مسائل چھوٹے نہیں‘

رفعت سعید، کراچی27 جولائی 2016

مراد علی شاہ کو درپیش مسائل میں ایک مسئلہ اچھے طرز حکمرانی کا تو ہوگا ہی لیکن صوبے میں بدعنوانی کا خاتمہ اور پیپلز پارٹی اور رینجرز کے درمیان خود کو متوازن رکھنا بھی نامزد وزیر اعلیٰ کے لیے ایک مشکل امر ثابت ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JWd4
Pakistan Karatschi Murad Ali Shah Ernennung
پیشے کے لحاظ سے انجینئر مراد علی شاہ گزشتہ تقریبا آٹھ برس سے سندھ کابینہ کا بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ ہیںتصویر: Governor House

پیشے کے لحاظ سے انجینئر مراد علی شاہ گزشتہ تقریبا آٹھ برس سے سندھ کابینہ کا بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ ہیں اور بطور وزیر خزانہ ان کی حیثیت کسی بھی طرح وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ سے کم نہیں تھی۔

مراد علی شاہ کی وزیر اعلیٰ کے لیے نامزدگی کا اعلان کرتے ہوئے مشیر اطلاعت سندھ مولا بخش چانڈو کا کہنا تھا کہ غیر معمولی لوگ غیر معمولی فیصلے کرتے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری نے یہ اہم فیصلہ کیا ہے کیونکہ پارٹی کو سن 2018 کے انتخابات کی تیاری کرنا ہے، جس کے لیے قدرے نوجوان کپتان کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قائم علی شاہ کی پارٹی اور صوبے کے لیے خدمات بھی ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے مراد علی شاہ کہا کہنا تھا کہ ان کی حکومت پارٹی کی پالیسیوں پر چلے گی لیکن وہ جلد ہی خود کو بااختیار ثابت کردیں گے۔ ’’رینجرز کی تعیناتی اور خصوصی اختیارات وقت کی ضرورت ہیں۔ میں نہ صرف پارٹی کے رہنما بلکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلوں گا۔ پیر صاحب پگارا سے ملاقات کر چکا ہوں اور ایم کیو ایم سے بھی ملوں گا۔ میرے حلقے سمیت صوبہ میں بہت سے مسائل ہیں انہیں حل کرنا ہے ۔‘‘

’پیپلز پارٹی بدل چکی ہے‘

تجزیہ کاروں کے مطابق مراد علی شاہ کے والد عبداللہ شاہ ایک انتہائی بااختیار اور طاقتور وزیر اعلیٰ کے طور پر جانے مانے جاتے تھے اور بطور وزیر اعلیٰ سندھ انہوں نے ایسے کیے فیصلے کیے، جن کے حوالے سے پارٹی قیادت کی رائے مختلف ہوتی تھی لیکن جس صورت حال میں مراد علی شاہ وزارت اعلیٰ کا منصب سمبھال رہے ہیں وہ عبداللہ شاہ کے دور سے بہت مختلف ہے۔

سنیئیر صحافی اشرف خان کہتے ہیں کہ مراد علی شاہ کے لیے دو بڑے چیلنجز کرپشن اور گڈ گورننس ہیں اور ان دونوں کا ہی براہ راست تعلق ان کے بااختیار ہونے سے ہے، ’’اگر مراد علی شاہ کے دور حکومت میں بھی صوبہ سندھ کے حکومتی معاملات فریال تالپور ہی چلاتی رہیں گی تو صورت حال قائم علی شاہ کے دور سے مختلف نہیں ہوسکتی۔‘‘

تجزیہ کار امجد علی کہتے ہیں، ’’عبداللہ شاہ کی پیپلز پارٹی مختلف تھی اور اس وقت پارٹی میں اختلاف کو اہمیت دی جاتی تھی اور مرکز میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ عبداللہ شاہ کو بے نظیر بھٹو کی حمایت حاصل تھی لیکن اب پیپلز پارٹی بدل چکی ہے، اختلاف کرنے والے کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ قائم علی شاہ کو دبئی بلا کر صرف تبدیل کا فیصلہ سنایا گیا ہے جبکہ انہیں اپنی گزارشات پیش کرنے تک کی مہلت بھی نہیں دی گئی۔‘‘

مراد علی شاہ نے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے سے پہلے ہی نئی کابینہ کی تشکیل کے لیے ملاقاتیں شروع کردی ہیں۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور مخدوم امین فہیم کے صاحبزادے جمیل الزماں سے ان کی ملاقاتیں اسی سلسلے کی کڑی قرار دی جا رہی ہیں۔

’بلامقابلہ منتخب ہونا مشکل ہو گا‘

سنیئیر صحافی امین حسین کی رائے میں مراد علی شاہ کی حزب اختلاف سے ملاقاتیں وزارت اعلیٰ کے لیے سادہ اکثریت حاصل کرنے اور بلامقابلہ منتخب ہونے کے لیے ہیں لیکن تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہونے دی گی۔ وزارت اعلیٰ کے لیے خرم شیر زمان کو نامزد کردیا گیا ہے اور عمران اسمائیل کہتے ہیں کہ حمایت حاصل کرنے کے لیے ایم کیو ایم سے بات کی جائے گی۔

Pakistan Karatschi Murad Ali Shah Ernennung
مراد علی شاہ کے بقول حکومت پارٹی کی پالیسیوں پر چلے گی لیکن وہ جلد ہی خود کو بااختیار ثابت کردیں گےتصویر: DW/R. Saeed
Pakistan Syed Qaim Ali Shah Politiker der Volkspartei
قائم علی شاہ کی پارٹی اور صوبے کے لیے خدمات بھی ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، پیپلز پارٹیتصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
Pakistan Schießerei in Karachi
پیپلز پارٹی اور رینجرز کے درمیان خود کو متوازن رکھنا نامزد وزیر اعلیٰ کے لیے ایک مشکل امر ثابت ہو سکتا ہےتصویر: Reuters/A. Soomro

پیپلزپارٹی کی سندھ اسمبلی ایک سو اڑسٹھ میں سے اٹھانوے سیٹیں ہیں مگر اویس مظفر عرف ٹپی اور شرجیل میمن سمیت دس اراکین بیرون ملک ہیں۔ یوں مراد علی شاہ کو سادہ اکثریت کے لیے بیانوے سیٹیں درکار ہیں۔ اس صورتحال میں ناقدین کا کہنا ہے کہ مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ تو بن ہی جائیں گے مگر بلامقابلہ نہیں۔

پیپلز پارٹی کی قیادت کو قائم علی شاہ سے ایک بڑی شکایت یہ بھی تھی کہ وہ فوج یا رینجرز کے سامنے اس کا مقدمہ صحیح طور پر نہیں لڑتے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ مراد علی شاہ اس حوالے سے پارٹی اور رینجرز کو ایک ساتھ کس طرح مطمئن کرتے ہیں۔ قائم علی شاہ کے برخلاف مراد علی شاہ کا پارٹی میں بہت سے دیگر رہنماوں سے جونیئر ہونا بھی ان کے لیے مشکلات پیدا کرے گا اور انہیں سب کو ساتھ لے کر چلنا بھی قدرے مشکل ہوگا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں