1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مریضہ کی ہسپتال سے متعلق رائے، بات سپریم کورٹ تک پہنچی

11 جولائی 2011

انڈونیشیا کی ایک خاتون اس بات پر حیران ہے کہ ملکی سپریم کورٹ نے اسے بری کرنے کا ایک ذیلی عدالت کا فیصلہ منسوخ کر دیا ہے۔ اس خاتون کی پریشانی کی وجہ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ فیس بک بنی۔

https://p.dw.com/p/11t4w
تصویر: picture alliance/dpa

اس انڈونیشی شہری کا نام پریتا مولیاسری ہے اور اس کی عمر چونتیس برس ہے۔ دو سال پہلے جب وہ بیمار ہوئی تو علاج کے لیے اسے جکارتہ کے اومنی انٹرنیشنل ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ وہاں ڈاکٹروں نے اس کی اصل بیماری کی تشخیص کرنے کے بجائے یہ کہا کہ اسے ڈینگی بخار ہے۔ اس پر پریتا نے اپنے قریب بیس دوستوں کو ای میلز لکھیں، جن میں اس نے اپنی بیماری کی غلط تشخیص کی کہانی بیان کر دی۔

Karte Indonesien englisch

بعد میں اس خاتون کو پتہ بھی نہ چلا کہ اس کی ای میلز فیس بک کے ذریعے دنیا بھر میں پہنچ گئی ہیں۔ اس پر ہسپتال کی انتظامیہ نے پریتا کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا کہ اس نے اس ادارے کو مجرمانہ انداز میں بدنام کیا۔ پھر بات ایک صوبائی عدالت تک پہنچی تو اس عدالت نے اسے بری کر دیا۔ اومنی انٹرنیشنل ہسپتال کی انتظامیہ اس فیصلے پر مطمئن نہ ہوئی اور اس نے انڈونیشیا کی سپریم کورٹ میں ایک نیا مقدمہ دائر کر دیا۔

اس سے پہلے مئی دو ہزار نو میں جب پریتا کو گرفتار کیا گیا تھا تو وہ تین ہفتے تک بغیر کسی باقاعدہ فرد جرم کے پولیس کی حراست میں رہی تھی اور اس کی رہائی حکام کے خلاف عوامی مظاہروں کے بعد عمل میں آئی تھی۔ اسی دوران اس کے خلاف مقدمہ بھی دائر کر دیا گیا تھا مگر عدالت نے اسی بری کر دیا۔

اب دو سال سے بھی زیادہ عرصے بعد انڈونیشی سپریم کورٹ نے پریتا کو اسی سال جون میں کوئی سزا تو نہیں سنائی مگر اسے بری کرنے کا ذیلی عدالت کا فیصلہ منسوخ کر دیا۔ اب جولائی میں اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر پریتا نے اگلے ایک سال کے دوران کسی قسم کے جرم کا ارتکاب کیا، تو اسے چھ ماہ کے لیے جیل جانا پڑے گا۔

Goolge Plus vs. Facebook Symbolbild NO FLASH
تصویر: dapd

پریتا مذہبی سوچ رکھنے والی ایک عام سی شہری ہے۔ اس کے وکیل نے آج پیر کے روز کہا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی۔ خود پریتا کا کہنا ہے کہ اس کے لیے سپریم کورٹ کا فیصلہ ناقابل قبول ہے اور وہ اپنا اپیل کا حق استعمال کرنا چاپتی ہے۔ پریتا کے وکیل کے مطابق کوئی عدالت یہ کیسے سوچ سکتی ہے کہ شکایت کرنا بھی جرم ہے۔ وہ بھی ایسی حالت میں کہ اس خاتون کی ای میلز اس کے علم یا مرضی کے بغیر ہی فیس بک تک پہنچ گئیں۔

رپورٹ:عصمت جبیں

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں