1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مزار شریف حملہ، افغان وزیر دفاع اور فوج کے سربراہ مستعفی

عاطف بلوچ، روئٹرز
24 اپریل 2017

مزار شریف حملے کے بعد افغان وزیر دفاع جنرل عبداللہ حبیبی اور ملکی فوج کے سربراہ قدم شاہ شہیم نے اپنے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ دوسری طرف امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس غیر اعلانیہ دورے پر کابل پہنچ گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2bmnc
Afghanistan Abdullah Habibi und Qadam Shah Shahim Bildkombo
افغان وزیر دفاع جنرل عبداللہ حبیبی (بائیں) اور ملکی فوج کے سربراہ قدم شاہ شہیم نے اپنے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔تصویر: picture-alliance/dpa/M. Sadiq/AP Photo/R. Gul

خبر رساں ادارے روئٹرز نے چوبیس اپریل بروز پیر بتایا ہے کہ مزار شریف میں واقع فوجی ہیڈ کوارٹرز پر حملوں کے باعث افغان وزیر دفاع جنرل عبداللہ حبیبی اور ملکی فوج کے سربراہ قدم شاہ شہیم مستعفی ہو گئے ہیں۔ جمعے کے دن ہوئی اس خونریز کارروائی میں ایک سو چالیس افغان فوجی ہلاک جبکہ ایک سو ساٹھ زخمی ہو گئے تھے۔

افغان طالبان کا حملہ: بیسیوں فوجیوں کی تدفین، دو جنرل برطرف

طالبان حملے میں 140 افغان فوجی ہلاک، میرکل کا غنی اظہار افسوس

سب سے بڑے بم حملے کے بعد قومی سلامتی کے امریکی مشیر کابل میں

کابل میں صدر دفتر کی طرف سے ایک ٹوئیٹ میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں کے استعفے قبول کر لیے گئے ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی مزار شریف حملے کے بارے میں جامع تحقیقات کا حکم بھی جاری کر چکے ہیں۔ غنی کے ترجمان شاہ حسین مرتضوی نے روئٹرز سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ مزار شریف حملے کے باعث ان دونوں عہدیداروں نے استعفیٰ دیا ہے۔

طالبان کی اس کارروائی کو افغان سکیورٹی اداروں کی ایک بڑی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے۔ جمعے کے دن تقریباً دس طالبان باغی فوجیوں کی وردیوں میں ملبوس ہو کر شمالی افغانستان میں مزار شریف کے مقام پر فوج کے اہم صدر ہیڈ کوارٹرز میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

ان جنگجوؤں نے وہاں بہیمانہ طریقے سے کارروائی کی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ ان جنگجوؤں نے مشین گنوں کے استعمال کے علاوہ خود کش حملے بھی کیے۔ کئی افغان حکام کے مطابق اس حملے میں ہلاک شدگان کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

پیر کی صبح ہی مظاہرین کے ایک چھوٹے سے گروپ نے صدر دفتر کے باہر احتجاج کرتے ہوئے وزیر دفاع کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔ افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور معلوم کیا جائے گا کہ آخر جنگجو اس فوجی بیس میں داخل ہونے میں کیسے کامیاب ہوئے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق پیر کے دن امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اپنے پہلے سرکاری دورے پر افغانستان پہنچ گئے ہیں۔ وہ ایک ایسے وقت پر کابل پہنچے ہیں، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ افغانستان کے لیے پالیسی تیار کرنے پر غور کر رہی ہے۔

گزشتہ اتوار کو امریکی سلامتی کے قومی مشیر جنرل ایچ آر میک ماسٹر نے بھی افغانستان کا دورہ کیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ میٹس اپنے اس دورے کے دوران افغان قیادت سے ملاقاتوں کے علاوہ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں سے بھی ملیں گے۔

امریکا کے علاوہ دیگر عالمی طاقتوں نے بھی مزار شریف میں ہوئے اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے افغان صدر اشرف غنی کو ارسال کردہ اپنے ایک پیغام میں افغان حکومت اور عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا تھا۔ برلن حکومت نے کہا ہے کہ طالبان کی اس کارروائی کے باوجود کابل حکومت سے تعاون کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یاد رہے کہ تقریباً ساڑھے نو سو جرمن فوجی افغانستان میں تعینات ہیں، جو مقامی دستوں کو مشاورت اور تربیت فراہم کر رہے ہیں۔