1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مستقبل کے ہوائی جہاز

رپورٹ: افسر اعوان، ادارت: گوہر نذیر9 جولائی 2009

یورپ کے معروف جہاز ساز ادارے ائیر بس نے حال ہی میں ایک دلچسپ مقابلہ کروایا جس میں دنیا کے بیاسی ملکوں کے سینکڑوں طلبہ نے مستقبل کے ہوائی جہازوں کے لئے تخلیقی تصورات پیش کئے۔

https://p.dw.com/p/HpHd
تصویر: AP

یہ بات عین ممکن ہے کہ آئندہ چند برسوں میں جب آپ چھٹیوں کے لئے کسی دوسرے ملک کا سفر کریں گے تو آپ کو ایسے ہوائی جہازوں میں سفر کرنا پڑے جس میں باہر کا نظارہ دیکھنے کے لئے کوئی کھڑکی نہ ہو۔ اور یہ جہاز کونجوں کی طرح ایک گروپ میں وی کی شکل پرواز کریں لیکن اس بات کا دارومدار ہوائی جہاز ساز ادارے ایئربس پر ہے۔ اگر یہ ادارہ ان تجاویزکو قبول کرتا ہے جو مستقبل کے ائیرکرافٹ انجینیئرز کی جانب سے پیش کی گئی ہیں تو یہ سب کچھ ممکن ہے۔

Deutschland Frankreich Airbus Logo dunkle Wolken Symbolbild
کمپنی ایئربس نے مستقبل کے جہازوں کے لئے تخلیقی تصورات پیش کرنے کا انوکھا مقابلہ منعقد کروایا ہےتصویر: AP

کمپنی ایئربس نے مستقبل کے جہازوں کے لئے تخلیقی تصورات پیش کرنے کا انوکھا مقابلہ منعقد کروایا ہے، جس میں دنیا کے 82 ملکوں کے 2350 ائیرکرافٹ انجینیئرنگ کے طلبہ اور یونیورسٹیوں نے حصّہ لیا۔ بہترین تصور پیش کرنے والے کو 30 ہزار یورو انعام دیا جائے گا۔

مستقبل کے جہازوں کے لئے یوں تو سینکڑوں تخیلاتی ڈیزائن اور جدتوں کے تصورات موصول ہوئے لیکن ایئربس کمپنی کے مطابق ان میں سے قابل عمل اور جدت کی بنیاد پر صرف پانچ تصورات کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے۔ اور اب انہی میں سے کوئی ایک اس مقابلے کا فاتح ہوگا۔

ایک تصوراتی خاکہ اسپین کی یونیورسٹی کا ہے جس میں کھڑکیوں کے بغیر جہاز کا تصور پیش کیا گیا ہے۔گو کہ اس سے ونڈو سیٹ پر بیٹھ کر سفر پسند کرنے والے مسافروں کو یقیناً مایوسی ہوگی لیکن ڈیزائنرز کے خیال میں اس قسم کا جہاز زیادہ ماحول دوست ہوگا۔

Airbus Cockpit wird gebaut in Meaulte
ایئربس کمپنی کے مطابق قابل عمل اور جدید ہونےکی بنیاد پر صرف پانچ تصورات کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہےتصویر: AP

شارٹ لسٹ کئے جانے والے پانچ تصورات میں سے دوسرا تصور آسٹریلیا کی کوئنز لینڈ یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے کیسٹر یا ارنڈی کے درخت کے قدرتی ریشوں سے جہاز کے کیبن کے لئے استعمال ہونے والا میٹیریل تیار کرنے کا ہے۔

تیسرا تصور چیک جمہوریہ کے طلبہ نے پیش کیا ہے جس میں جہاز کی اڑان سے قبل اور اترنے کے بعد رن وے سے ٹرمینل کے درمیان سفر یا ٹیکسی کے لئے بجلی کی موٹریں استعمال کرنے کا ہے۔موجودہ جہازوں میں ٹیکسی کے لئے جہاز کے انجن چلائے جاتے ہیں جس سے نہ صرف سالانہ کئی بلین ڈالرز کا جیٹ ایندھن استعمال ہوجاتا ہے بلکہ اس تیل کے جلنے سے فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

ایک اور ڈیزائن میں اسی مقصد کے لئے شمسی توانائی کے استعمال کا تصور پیش کیا گیا۔ یہ تصور سنگاپور کے طلبہ نے پیش کیا ہے۔

B-2 - Grossbild
جنگی ہوائی جہازوں میں ڈیزائن کے اعتبار سے زیادہ تنوّع پایا جاتا ہےتصویر: AP

پیش کئے گئے تمام ہی تصورات میں سے شائد سب سے تخیلاتی تصور امریکی یونیورسٹی سٹینفورڈ کے طلبہ کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔ ان طلبہ کے مطابق جہازوں کوگروپ کی صورت میں وی کی شکل بناتے ہوئے سفر کرنا چاہیے بالکل اسی طرح جیسا کہ کونجیں یا ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرنے والے دیگر پرندے کرتے ہیں۔

دراصل اس طرح سفر کرنے سے سب سے آگے والے پرندے کے پروں سے گزرنے والی ہوا کے دباؤ میں جب دوسرا پرندہ سفر کرتا ہے تو اسے کم توانائی لگانی پڑتی ہے۔ اسی لئے یہ پرندے سستانے کے بعد سب سے آگے جاتے رہتے ہیں کیونکہ آگے والے پرندے کو سب سے زیادہ توانائی صرف کرنا پڑتی ہے۔

اس طریقے کو استعمال کرنے سے سب سے آگے والے جہاز کے علاوہ دیگر جہازوں کو نسبتاً کم توانائی کی ضرورت ہوگی اور نتیجتاً کم پٹرول صرف ہوگا۔

ہوائی جہاز بنانے والی یورپ کی معروف کمپنی ایئربس ذرائع کے مطابق یہ ضروری نہیں ہے کہ ان تصورات کو استعمال بھی ضرور کیا جائے مگر یہ تمام ہی تصورات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔