1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسٹر مسل مینیا، جیت کے بعد بھی مسائل ختم نہ ہوئے

عاطف توقیر17 جنوری 2016

سلمان احمد وہ پہلے پاکستانی ہیں، جنہوں نے گزشتہ برس لاس ویگاس میں باڈی بلڈنگ کے عالمی مقابلے مسٹر مسل مینیا کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا، تاہم وہ اپنی مفلسی اور حکومتی عدم توجہ پر ابھی تک دکھی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Hexh
Pakistan Lahore Salman Ahmed Bodybuilder
تصویر: Getty Images/A. Ali

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مسٹر مسل مینیا نہ اپنے مینیجرز اور کوچز کے لیے سرمایے کے حامل ہیں اور نہ ہی ان کے پاکستان میں اپنے حریفوں کی طرح اشتہارات کے لیے مالی کوئی رقم ہے۔

25 سالہ مسٹر مسل مینیا سلمان احمد امریکی شہر لاس ویگاس میں اس مقابلے میں فتح کے بعد وطن واپس پہنچ چکے ہیں تاہم اب ان کے پاس بس دو ہی راستے ہیں، یا تو وہ تن سازی چھوڑ دیں یا وطن چھوڑ دیں۔

کرکٹ کے جنون میں مبتلا پاکستان میں کسی اور کھیل کے حوالے سے زیادہ دلچسپی کم ہی دکھائی دیتی ہیں اور اس حوالے سے حکومتی توجہ اور مالی معاونت بھی کرکٹ کے علاوہ کسی اور کے حصے میں دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے ساتھ ساتھ سلمان احمد جب غیر ملکی اسپانسرز تلاش کرتے ہیں تو وہ بھی پاکستان میں سلامتی کی صورت حال کی وجہ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔

Pakistan Lahore Salman Ahmed Bodybuilder
سلمان احمد حکومت سے توجہ کا تقاضا کرتے ہیںتصویر: Getty Images/A. Ali

پاکستانی شہر لاہور کے ایک جِم میں ورزش کرتے ہوئے اے ایف پی کے ساتھ گفتگو میں سلمان احمد نے کہا، ’’کسی تن ساز کا پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں۔‘‘

لاس ویگاس میں کم وزن کی کیٹیگری میں قدرتی تن سازی کے شعبے میں انعام جیتنے والے سلمان احمد کو پاکستان میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے بھی تہنیت کا پیغام پہنچایا گیا، جب کہ پاکستان کے روایتی حریف ملک بھارت کی طرف سے بھی انہیں متعدد شہروں میں سیمینارز میں بات چیت کے لیے مدعو کیا جا چکا ہے۔ مگر سلمان احمد کے مطابق، ’’پاکستانی حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں کو تمام توجہ مل جاتی ہے جب کہ دیگر کھلاڑیوں کو نہ توجہ ملتی ہے اور نہ ہی مالی مدد۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے تو مجھے تہنیت کا کوئی پیغام تک نہیں ملا۔‘‘

سلمان احمد نے بتایا کہ متعدد یورپی ممالک اور امریکا کی جانب سے یہ پیش کش کی گئی ہے کہ وہ ان کی جانب سے مقابلوں میں شریک ہوں۔ ’’مگر پھر مجھے اپنا گھر اور اپنا ملک چھوڑنا ہو گا اور پھر میں اپنے ملک کا پرچم نہیں لہرا پاؤں گا۔‘‘