1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسیحی تہوار ایسٹر کے موقع پر دنیا بھر میں اجتماعات

17 اپریل 2006

مسیحی باشندے اپنا مذہبی تہوار ایسٹر یا عیدالفصح جوش وخروش کے ساتھ منا رہے ہیں۔ کل اتوار کے روز روم کے سینٹ پیٹرز اسکویئر میں پاپائے روم Benedict شانزدہم نے اپنے ایسٹر پیغام میں دیگر باتوں کے علاوہ ایران کے ایٹمی تنازعے کے باعزت حل کے لئے سنجیدہ اور مخلصانہ مذاکرات پر زور دیا۔ اِدھر جرمنی بھر میں ایسٹر کے روایتی امن جلوسوں میں ہزارہا افراد شرکت کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/DYLo
پاپائے روم Benedict شانزدہم
پاپائے روم Benedict شانزدہمتصویر: AP


مسیحی دُنیا کے ایک بڑے تہوار ایسٹر یا عیدالفصح کی تقریبات اتوار 16 اپریل کی صبح ایشیا میں اِس براعظم کی سب سے بڑی مسیحی ریاست فلپائن سے شروع ہوئیں۔ اِس کے بعد کمیونسٹ ویت نام کے ساتھ ساتھ چین میں بھی منایا گیا لیکن سرکاری عتاب کے ڈر سے جزوی طور پر چھپ کر۔ کچھ ایسی ہی صورتحال افغانستان میں بھی رہی، جہاں گذشتہ مہینے ایک شخص کو اِسلام چھوڑ کر مسیحیت اختیار کر لینے کی وجہ سے موت کی سزا کا سامنا تھا۔

یروشلم میں اِس بار ایسٹر کے موقع پر بہت زیادہ رونق دیکھنے میں آئی اور زائرین کی تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں بیس فیصد کے اضافے کے ساتھ کوئی 90 ہزار ریکارڈ کی گئی۔ اُدھر میکسیکو سٹی میں ایسٹر کے ایک جلوس میں تین لاکھ افراد شریک ہوئے۔

اِدھر پاپائے روم Benedict شانزدہم کے لئے اِس منصب پر اپنے انتخاب کے بعد سے یہ پہلا ایسٹر تھا۔ اِس موقع پر کل اتوار کے روز اطالوی دارالحکومت روم کے سینٹ پیٹرز اسکویئر میں دُنیا بھر سے گئے ہوئے کوئی ایک لاکھ زائرین موجود تھے۔ پاپائے روم نے جب اپنا خصوصی پیغام اُربی اَیٹ اَوربی پڑھ کر سنایا تو اُن کی آواز دُنیا کے 65 ممالک میں براہِ راست نشر ہو رہی تھی۔ دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ کیتھولک کلیسا کے جرمنی سے تعلق رکھنے والے سربراہ نے ایسٹر کی مبارکباد ہندی اور اردو زبانوں میں بھی دی۔

کل اتوار کے روز، جبکہ پاپائے روم کی اُناسی ویں سالگرہ بھی تھی، اُنہوں نے اپنے خطاب میں ایران کے ایٹمی تنازعے، دارفور کے المناک بحران اور دُنیا کے دیگر تنازعات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ایران کے تنازعے کے با عزت حل کے لئے سنجیدہ اور مخلصانہ مذاکرات ہونے چاہییں۔

پاپائے روم نے اسرائیل کے باقی رہنے کے حق پر زور دینے کے ساتھ ساتھ پُر زور انداز میں یہ بھی کہا کہ فلسطینیوں کو اپنی ایک الگ ریاست قائم کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ کیتھولک کلیسا کے سربراہ نے جنوبی سوڈان کے علاقے دارفور کے انسانوں کے مصائب کو ناقابلِ برداشت قرار دیا ، عراق میں پُر تشدد کارروائیوں کے خاتمے اور وہاں قیامِ امن کی دعا کی اور کہا کہ لاطینی امریکہ میںعوام کے لئے حالات بہتر بنائے جانے چاہییں، جمہوری ادارے مستحکم ہونے چاہییں اور اغوا کے واقعات ختم ہونے چاہییں۔

اِدھر جرمنی میں ہر سال کی طرح اِس بار بھی تحریکِ امن کی جانب سے ایسٹر کے روایتی اجلوس منظم کئے گئے۔ جہاں 60ءکے عشرے سے لے کر 80ءکے عشرے کے اوائل تک اِن جلوسوں میں لاکھوں افراد شرکت کیا کرتے تھے ، وہاں اب کئی برسوں سے شرکاءکی تعداد بہت کم ہو چکی ہے۔

اِس بار بھی منتظمین نے اعتراف کیا ہے کہ اُن کی توقع سے کہیں کم افراد نے اِن امن جلوسوں میں شرکت کی۔ سب سے بڑا اجتماع برانڈن برگ کے شمال میں ہوا ، جس میں منتظمین کے بیان کے مطابق کوئی بارہ ہزار جبکہ مبصرین کے اندازوں کے مطابق کوئی پانچ ہزار افراد شریک ہوئے۔ اِس مظاہرے کا مقصد وفاقی جرمن فوج کی جانب سے وہاں کے ایک سرسبز علاقے کو فضا سے زمین پر بمباری کی مشقوں کے لئے استعمال کرنے کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔

پورے جرمنی میں تحریکِ امن کی طرف سے کوئی 80 مختلف تقریبات اور اجتماعات کا اہتمام کیا گیا تھا ، جن میں علاقائی تنازعات کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ جاری ایٹمی تنازعے کو بھی موضوع بنایا گیا۔