1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصری جن پارٹيوں کو بھی منتخب کريں، يورپ تسليم کرلے

22 نومبر 2011

مصر ميں جب فروری ميں حکومت کا تختہ الٹ ديا گيا تھا اور نوجوان مصری شہری آزادی، جمہوريت اور انصاف کے نعرے لگا رہے تھے تو يورپ اور امريکہ نے يہ سمجھا تھا کہ وہ اُنہی قدروں کے لئے لڑ رہے تھے جو اُن کی اقدار بھی ہيں۔

https://p.dw.com/p/13Ejt
تصویر: picture-alliance/dpa

مغرب کواس پر بھی خوشی تھی کہ ان مظاہروں ميں امريکہ اور اسرائيل کے پرچم نہيں جلائے گئے۔ ليکن اب مغرب پر يہ عياں ہو رہا ہے کہ مصری پھر بھی اُن جيسے نہيں ہيں۔

مصری يورپی نہيں ہيں۔ مصر کی 20 فيصد آبادی غربت کی سطح سے بھی نيچے زندگی گذار رہی ہے۔ تقريباً 40 فيصد مصری لکھ پڑھ نہيں سکتے۔ مصر ميں 20 سے 24 سال کی درميانی عمر والے نوجوانوں ميں سے آدھے بے روزگار ہيں۔ پچھلے کئی برسوں سے مصر ميں آبادی اور اس طرح نوجوانوں کی تعداد ميں تيزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ نتيجتاً بے چينی اور شورش کا امکان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ کھانے پينے کی چيزوں کی قيمتوں ميں مسلسل اضافے کی وجہ سے بھی عوام اور خاص طور پر نوجوانوں ميں بے چينی بڑھتی جا رہی ہے۔ حُسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے سے يہ مسائل کم نہيں ہو ئے ہيں۔ مصر کے مقابلے ميں تو قرضوں اور مالی بحران کی شديد لپيٹ ميں آئے ہوئے ملک يونان تک ميں شہريوں کی معاشی حالت نسبتاً مستحکم ہے۔

مصر کی حقيقت حال مختلف ہے۔ رائے عامہ کے تمام جائزوں کے مطابق مصر ميں اسلامی اثرات والے معاشرتی نظام کو اکثريت کی حمايت حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی طرح نفرت سے ديکھے جانے والے ہمسايہ ملک اسرائيل کے ساتھ کيے گئے امن معاہدےہ پر بھی نظر ثانی ممکن ہے۔ اگر 28 نومبر کو ہونے والے پارليمانی انتخابات ميں، عام توقع کے مطابق اخوان المسلمون اور انتہا پسند اسلامی تحريکوں کی جيت ہوئی تو اسلامی نظام اور اسرائيل سے معاہدہء امن پر نظر ثانی مصر کی رياستی اور حکومتی پاليسی بن سکتے ہيں۔ ليکن يہ يورپ کے سياسی مفادات اور تصورات کے خلاف ہو گا۔

عن قريب ہونے والے انتخابات کے ليے لگائے گئے پوسٹر
عن قريب ہونے والے انتخابات کے ليے لگائے گئے پوسٹرتصویر: DW

مصر ميں ايک ادارہ ايسا ہے، جو ملک کی داخلی اور خارجہ سياست کو بہت زيادہ اسلامی ہونے سے روک سکتا ہے اوروہ ہے فوج۔ اس وقت فوج اپنے مستقبل، طاقت اور اقتصادی مفادات کو مضبوط بنانے کے ليے مختلف ترکيبيں کر رہی ہے۔ وہ خود کو ملک کے استحکام اوراپنے ساتھيوں کے ليے مصر کے قابل اعتماد بنے رہنے کی ضمانت بھی سمجھتی ہے۔ مصری عوام فوج کے زير نگرانی ايک نئے آئين کی تياری پراحتجاج کر رہے ہيں اور سکيورٹی فورسز پھر اُن کے خلاف طاقت استعمال کر رہی ہيں۔

يورپ کو مصری شہريوں کے سياسی حق خود اختياری کی حمايت کرنا ہوگی، چاہے اُن کی اکثريت ايسی پارٹيوں ہی کو کيوں نہ منتخب کرے جو يورپ کو پسند نہ آئيں۔

تبصرہ: رائنر زولش

ترجمہ: شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں