1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصری پارلیمانی انتخابات، ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

29 نومبر 2011

مصر میں حسنی مبارک کے دور اقتدار کے خاتمے کے بعد ہونے والے اولین پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے کا آج دوسرا اور آخری دن ہے۔ اکثر مصری شہریوں کے لیے یہ الیکشن ان کی زندگی کے حقیقی طور پر پہلے جمہوری انتخابات ہیں۔

https://p.dw.com/p/13J8V
قاہرہ میں ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر کھڑی خواتین ووٹرزتصویر: dapd

ماضی میں ہونے والے انتخابات میں عشروں تک دھاندلی کی گئی اور نتائج تو رائے دہی سے پہلے ہی طے ہوتے تھے۔ مصر میں پارلیمانی انتخابات کے موضوع پر ڈوئچے ویلے کی بیٹینا مارکس کا لکھا تبصرہ:

سال رواں کے دوران یہ دوسرا موقع ہے کہ دنیا حیرانی اور احترام کے جذبات کے ساتھ مصر کی طرف دیکھ رہی ہے۔ دریائے نیل کے کنارے اس ملک کے باشندے دنیا کو دکھا رہے ہیں کہ وہ اپنے وطن میں جمہوریت متعارف کرانے اور اپنی حکومت خود منتخب کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ مصری عوام متاثر کن اطمینان کے ساتھ اپنے اس حق کا استعمال کر رہے ہیں، جو انہوں نے اسی سال جنوری اور فروری میں بڑی جدوجہد کے بعد اپنے لیے حاصل کیا تھا اور اسی حق کی بدولت وہ حالیہ ہفتوں میں ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

شمالی افریقہ کے اس ملک کے اکثر شہریوں کے لیے یہ وہ پہلے آزادانہ انتخابات ہیں جن میں وہ حصہ لے رہے ہیں۔ ماضی میں انہیں عشروں تک رائے دہی کے لیے کہا تو جاتا تھا مگر نتائج میں دھاندلی بھی کی جاتی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جاتی تھیں یا انہیں الیکشن میں حصہ لینے سے ہی روک دیا جاتا تھا۔

حسنی مبارک نے 30 سال تک ملک پر حکومت کی۔ فوج اور بدعنوان سرکاری ملازمین کے ایک نیٹ ورک کی مدد سے وہ پارلیمانی احتساب سے بھی بچے رہے۔ مبارک سے پہلے انور سادات اور ان سے پہلے جمال عبدالناصر بھی۔ سبھی کا تعلق مسلح افواج سے تھا اور انہوں نے فوج کی مدد سے ہی حکمرانی کی۔ وہ بھی ایسے ہی جرنیل ہیں جو حسنی مبارک کی معزولی کے بعد اقتدار میں آئے۔ اس وعدے کے ساتھ کہ ملک میں جمہوریت لائی جائے گی اور عبوری مدت میں سلامتی اور نظم و ضبط یقینی بنائے جائیں گے۔

Ägypten Wahlen Parlament Kairo
پولنگ اسٹیشنوں پر پولیس اور فوج کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھیتصویر: picture alliance/dpa

ان جرنیلوں کے اختیارات اور طریقہء کار کے خلاف گزشتہ ہفتوں کے دوران ہونے والے عوامی مظاہرے قاہرہ، اسکندریہ، سوئز اور کئی دیگر شہروں میں بھی دیکھنے میں آئے۔ خونریز ثابت ہونے والے ان مظاہروں کے دوران اور بھی واضح ہو گیا کہ مصری معاشرہ کس حد تک تقسیم کا شکار ہے۔

اب تحریر اسکوائر کے مظاہرین مصری عوام کی اکثریت کی آواز نہیں رہے۔ مصری باشندوں کی اکثریت اب اپنے ملک میں استحکام، اقتصادی ترقی اور بہتر معیار زندگی میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ وہ دوبارہ مظاہروں اور تحریر اسکوائر پر پھر سے قبضہ کرنے کے خلاف ہے۔

زیادہ تر شہریوں کی آواز اب اس لیے اخوان المسلمون کی آواز محسوس ہوتی ہے کہ اسلامی سوچ رکھنے والی یہ جماعت حکمران فوجی کونسل کے فیصلوں کی مخالفت نہیں کر رہی، وہ اب عوامی مظاہروں میں بھی شامل نہیں ہے اور اس نے انتخابات میں بھی بھرپور انداز میں حصہ لیا ہے۔ اخوان المسلمون کو امید ہے کہ اگلے سال مارچ تک جاری رہنے والے الیکشن کے نتیجے میں وہ نئی ملکی پارلیمان میں ایک بڑی سیاسی طاقت کا کردار ادا کر سکے گی۔

مصر میں نئی جمہوری حکومت کو آئندہ عوام کے سماجی حقوق کا تحفظ بھی کرنا ہو گا کیونکہ کوئی بھی جمہوریت سماجی انصاف کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔

تبصرہ: بیٹینا مارکس، برلن

ترجمہ: مقبول ملک

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں