1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر: الجزیرہ کے تین صحافیوں کے لیے تین برس قید کی سزا

امتیاز احمد29 اگست 2015

مصر کی ایک عدالت نے عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کے تین صحافیوں کو تین تین سال کی سزائے قید سنا دی ہے۔ یہ مقدمہ ایک طویل عرصے سے جاری تھا جبکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے کارکن اسے تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GNmO
Archivbild Ägypten Al Jazeera Journalisten Prozess
تصویر: picture-alliance/AP Photo

کنیڈین شہری محمد فہمی، آسٹریلن صحافی پیٹر گرسٹے اور مصری پروڈیوسر بہار محمد کے خلاف اس مقدمے کو عالمی سطح پر توجہ حاصل تھی۔ آزادی رائے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے قاہرہ حکومت پر زور دیا جا رہا تھا کہ وہ ان صحافیوں کو بری کر دے۔ تاہم ہفتے کو مصری عدالت نے قومی سلامتی کے خلاف اور ’جھوٹی صحافت‘ کے الزامات کے تحت اِن صحافیوں کو سزا سنا دی۔ آسٹریلوی صحافی گرسٹے کو رواں برس کے اوائل میں اپنے وطن واپس بھیج دیا گیا تھا تاہم بہار محمد اور محمد فہمی قید میں ہیں۔ الجزیرہ ٹیلی وژن چینل نے اس عدالتی فیصلے کو آزادی صحافت پر ایک دانستہ حملہ قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ سن 2013 میں مصر کے پہلے جمہوری صدر محمد مرسی کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد یہ مقدمہ صحافت کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست میں بھی مصر اور خلیجی ریاست قطر کے دو طرفہ تعلقات میں خلیج کا باعث بنا۔ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ یہ مقدمہ اور سنائی جانے والی سزا ان تین صحافیوں کو کس طرح متاثر کرے گی۔ آسٹریلن صحافی پیٹر گرسٹے کو فروری میں مصر سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ ان کا سڈنی سے الجزیرہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے اور انہیں امید ہے کہ اپیل میں یہ سزا منسوخ کر دی جائے گی۔ دوسری جانب فہمی اور بہار فیصلے کے وقت عدالت ہی میں موجود تھے، جنہیں جج کے فیصلے کے فوری بعد پولیس کسی نامعلوم مقام پر لے گئی۔

الجزیرہ انگریزی چینل کے قائم مقام ڈائریکٹر جنرل مصطفیٰ سواگ کا اس عدالتی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہنا تھا، ’’اس میں عقل اور منطق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس سارے کیس کو سیاست زدہ کیا گیا جبکہ آزاد اور منصفانہ انداز میں مقدمہ بھی نہیں چلایا گیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ایسا کوئی ایک بھی ثبوت موجود نہیں ہے کہ ہمارے ساتھیوں کی کوئی ایک بھی خبر من گھڑت تھی اور نہ ہی کوئی ایسا ثبوت ہے کہ کسی دہشت گرد تنظیم کی حمایت یا مدد کی گئی ہو۔‘‘

جج حسن فرید کا فیصلہ سناتے ہوئے کہنا تھا کہ ان افراد کو اس وجہ سے سزا دی جا رہی ہے کہ وہ ملکی صحافیوں کی تنظیم کے رکن نہیں تھے جبکہ یہ اپنا سازو سامان ملکی سکیورٹی حکام کی اجازت کے بغیر لے کر آئے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے الجزیرہ پر ’من گھڑت‘ خبریں نشر کیں اور بغیر کسی اجازت کے اپنے ہوٹل کو براڈکاسٹنگ پوائنٹ کے طور پر استعمال کیا۔

اس فیصلے کے فوری بعد فہمی کی بیوی مروہ نے زور زور سے رونا شروع کر دیا جبکہ فہمی کی نمائندگی کرنے والے انسانی حقوق کے وکیل امل کلونی کا کہنا تھا، ’’آج کا فیصلے، مصر کے لیے خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ فہمی نے ناراض ہو کر کینیڈا میں اپنے چینل کے خلاف ایک سو ملین کے ہرجانے کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے۔ فہمی کا کہنا ہے کہ اس کے چینل نے اپنے ملازمین کی حفاظت کی نسبت رپورٹوں کو زیادہ اہمیت دی اور اپنے عربی چینل کو اخوان المسلموں کی وکالت کے لیے استعمال کیا۔ الجزیرہ کا کہنا ہے کہ فہمی کو معاوضے کا مطالبہ مصر سے کرنا چاہیے۔