1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر میں پارلیمنٹ تحلیل، آئین معطل

13 فروری 2011

مصر کے نئے فوجی حکمرانوں نے پارلیمنٹ تحلیل کر دی ہے جبکہ آئین بھی معطل کر دیا گیا ہے۔ یہ پیش رفت سابق صدر حسنی مبارک کی جانب سے مستعفی ہونے کے دو روز بعد سامنے آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/10GW8
تصویر: dapd

یہ اعلان سرکاری ٹیلی ویژن پر کیا گیا ہے۔ فوج نے کہا ہے کہ آئندہ چھ ماہ کے اندر اندر انتخابات منعقد کیے جائیں گے۔ تحلیل کردہ کابینہ میں حسنی مبارک کی پارٹی کے ارکان کی زیادہ تعداد شامل تھی۔

دوسری جانب مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہزاروں مظاہرین نے التحریر اسکوائر پر پھر سے ڈیرہ جما لیا ہے۔ فوج نے انہیں منتشر کرنے کی کوشش بھی کی جبکہ وزارت داخلہ کے دفاتر کے قریب فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔

قاہرہ میں وزارت داخلہ کے دفاتر کے قریب پولیس اہلکاروں نے مظاہرہ کیا۔ وہ تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس موقع پر ہوائی فائرنگ کی گئی۔

Revolution in Ägypten
تحریر اسکوائر پر موجود ایک لڑکی فوجیوں کو پھول پیش کر رہی ہےتصویر: dapd

فوج نے التحریر اسکوائر پر جمع مظاہرین کو علاقہ خالی کرنے کے لیے کہا، تاہم وہ یہ نعرے لگاتے رہے، ’فوج اور عوام متحد ہیں‘، ’انقلاب، جب تک فتح مل نہیں جاتی انقلاب۔‘

مظاہرین میں سے ایک شخص نے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کیا، ’فوج مصر کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کا کام ہمیں التحریر اسکوائر سے ہٹانا نہیں۔ انہیں ہمارے مطالبات کا جواب دینا چاہیے۔‘

اس دوران فوج نے آگے بڑھنے کی کوشش کی جبکہ کہیں کہیں لاٹھی چارج بھی ہوا۔ تاہم مظاہرین ڈٹے رہے جبکہ مزید افراد ان کا حصہ بنتے گئے۔ مظاہروں کے منتظمین انقلاب کے تحفظ کے لیے ’کونسل آف ٹرسٹیز‘ قائم کر رہے ہیں، جو فوج کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔

دوسری جانب ملٹری پولیس کے سربراہ محمد ابراہیم مصطفیٰ علی نے مظاہرین سے مخاطب ہو کر کہا، ’آج کے بعد ہم کسی فرد کو تحریر اسکوائر پر بیٹھے نہیں دیکھنا چاہتے۔‘

ایک فوجی کیپٹن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ’عمومی احکامات یہ ہیں کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ صورت حال کنٹرول سے باہر ہونے پر کیا کرنا ہوگا۔ تاہم فائرنگ قطعی منع ہے۔’

Revolution in Ägypten
ملٹری پولیس مظاہرین کو ہٹانے کی کوشش کر رہی ہےتصویر: AP

قبل ازیں کابینہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ سابق صدر حسنی مبارک کی جانب سے تشکیل دی گئی کابینہ میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہو گی اور اسی کے ارکان آئندہ مہینوں میں اقتدار کی منتقلی کے عمل کی نگرانی کریں گے۔’

اتوار کے لیے کابینہ کا اجلاس بھی شیڈول تھا، جس میں مظاہرین کی جانب سے پیش کیے گئے مطالبات کا ردِ عمل سامنے آنے کے اشارے دیے جا رہے تھے۔ ترجمان کا کہنا تھا، ’جب تک تبدیلی کا عمل مکمل نہیں ہو جاتا، حکومت آئندہ چند ماہ تک اسی شکل میں برقرار رہے گی۔ تب جمہوری اصولوں کے مطابق نئی حکومت مقرر کی جائے گی۔‘

انہوں نے کہا تھا کہ اس وقت حکومت کا بنیادی کام امن و امان بحال کرنا ہے جبکہ معاشی بحالی پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔

مصر کے سابق صدر حسنی مبارک نے اٹھارہ روز تک جاری رہنے والے عوامی احتجاج کے بعد جمعہ کو اقتدار چھوڑ دیا تھا۔

رپورٹ: ندیم گِل/ خبررساں ادارے

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں