1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر کا معزول فرعون، عدالت میں پیش

3 اگست 2011

تقریباﹰ تیس برس حسنی مبارک مصر پر آہنی ہاتھوں سے حکومت کرتے رہے ہیں لیکن آج انہیں عدالت کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔ حسنی مبارک پر قتل، بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/12A3W
تصویر: Egyptian State TV/AP/dapd

اگر ان پر یہ الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو انہیں سزائے موت بھی سنائی جا سکتی ہے۔ حسنی مبارک کے خلاف مقدمے کی سماعت کا آغاز ہو گیا ہے۔ سابق صدر کو اب عدالت کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا لیکن یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ وہ باقاعدگی سے عدالت میں حاضر ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پیٹ کے کینسر میں مبتلا ہیں مگر باقاعدہ طور پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔ وزارت صحت کے مطابق حسنی مبارک کی صحت مستحکم ہے اور وہ عدالتی کارروائی کا سامنا کر سکتے ہیں۔

برلن میں قائم ’ماڈرن اوریئنٹل اسٹڈیز‘ انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والی Sonja Hegasy کہتی ہیں کہ مصری صدر کا مقدمہ طول پکڑ سکتا ہے، ’’یہ انتہائی مشکل ہے کہ عدالتی کارروائی جلد اور مؤثر انداز میں آگے بڑھے۔ صدر کے خلاف دراصل ثبوتوں کے ساتھ ساتھ اچھی تیاری کی بھی ضرورت ہوگی، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سارا عمل منصفانہ اور آزادانہ ہو گا یا نہیں۔‘‘

سابق صدر کے خلاف الزامات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ تراسی سالہ مبارک اپنے دور اقتدار میں آہنی ہاتھوں سے حکومت کرتے رہے ہیں۔ ان کی آمرانہ طرز حکمرانی کے دوران ان کے سیاسی جماعت ہمیشہ ہی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرتی رہی اور حقیقی اپوزیشن کا ملک میں وجود نہ ہونے کے برابر رہا۔ حسنی مبارک کو اپنے دور صدارت کے دوران سب سے بڑی کامیابیاں خارجہ پالیسیوں میں ملیں۔ بہت سے ملکوں کے رہنما مبارک کو خطے میں استحکام اور انتہا پسندی کے خلاف ایک قابل اعتماد اتحادی سمجھتے تھے۔ مشرق وسطی امن عمل میں مبارک کو ایک اہم ثالث کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

Ägypten Mubarak vor Gericht Prozessbeginn Käfig liegend NO FLASH
بیمار ہونے کی وجہ سے مصر کے سابق صدر کو کمرہ عدالت میں ایک بستر پر لٹایا گیا تھاتصویر: Egyptian State TV/AP/dapd

لیکن اس کے برعکس ملکی سطح پر مبارک کو ہمیشہ ہی مسائل کا سامنا رہا۔ سن 1981 سے وہ ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے تحت برسر اقتدار رہے۔ اس دوران اپوزیش کو ہر طرح سے دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی گئی۔ کتابوں اور دانشوروں پر پابندیاں لگا دی گئیں اور مخالفین سے جیلیں بھر دی گئیں۔ سابق مصری صدر کے ملکی فوج کے ساتھ تعلقات انتہائی قریبی رہے۔

اب ملکی فوج کس حد تک اپنے سابق صدر کے ساتھ ہے۔ اس بارے میں برلن کے ایک تھینک ٹینک سے وابستہ مصری امور کے ماہر اسٹیفن رول کہتے ہیں، ’’میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ مصر میں بہت گہری جڑیں رکھنے والے کچھ ملٹری افسران سابق حکومت کے خلاف تحقیقات جاری رکھنے کی منظوری دے چکے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ حسنی مبارک کے فوجی اشرافیہ کے ساتھ انتہائی اچھے تعلقات تھے۔ فوج کے درمیانی درجے کے افسران سابق صدر کے خاندان اور اس کے خلاف ہیں اور یہی تحقیقات کے لیے دباؤ ڈالے ہوئے ہیں۔‘‘

دوسری جانب آج حسنی مبارک اور اس کے بیٹوں نے ان پر لگائے جانے والے تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔

رپورٹ: لاچن تھوماس / امتیاز احمد

ادارت: عدنان اسحاق