مظاہرے میں ہلاک ہونے والے ایرانی نوجوان کے جنازے پر تصادم
16 فروری 2011ایران کے سرکاری ٹیلی وژن کی ویب سائٹ کے مطابق، ’’شہید صانع ژاله کے جنازے میں شریک تہران کی فائن آرٹس یونیورسٹی کے طلبہ اور دیگر افراد کی کچھ لوگوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں، جو بظاہر باغی تحریک سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘
یہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب حکومت کے حامیوں نے، جن میں ارکان پارلیمان اور انقلابی گارڈز کے ارکان بھی شامل تھے، زالے کے جنازے کے موقع پر مظاہرہ کر رہے تھے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق یہ مظاہرین امریکہ، اسرائیل، برطانیہ کے خلاف نعروں کے علاوہ موسوی اور کاروبی کے خلاف بھی نعرہ بازی کررہے تھے۔ ویب سائٹ کے مطابق ان مظاہرین نے موقع پر موجود اپوزیشن کے حامیوں کو وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی جس پر یہ تصادم شروع ہوا۔
صانع ژاله پیر کے روز ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والے دو افراد میں ایک تھا۔ یہ مظاہرے ایرانی اپوزیشن رہنماؤں میر حسین موسوی اور مہدی کروبی کی کال پر مصری اور تیونسی عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے منعقد کیے گئے تھے۔ تاہم بدھ کے روز ہلاک ہونے والے اس نوجوان کے حوالے سے اس وقت تنازعہ کھڑا ہوگیا جب حکومت کے حامیوں نے دعویٰ کیا کہ وہ رضاکار بسیج ملیشیا کا رکن تھا، جبکہ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ وہ ان کا حصہ تھا۔
دوسری طرف اپوزیشن ویب سائٹ Rahesabz.net کا کہنا ہے کہ صانع ژاله موسوی کے حامیوں میں سے تھا اور سبز تحریک کا رکن تھا۔ ویب سائٹ کے مطابق زالے کے خاندان پر شدید دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ اس کے بسیج ملیشیا کا رکن اور حکومت کا حامی ہونے کا اعلان کریں۔
ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق صانع ژاله تہران کی فائن آرٹس یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور اسے کم فاصلے سے مار کرنے والے ہتھیار سے گولی مارکر ہلاک کیا گیا۔
رپورٹ: افسراعوان
ادارت: امتیاز احمد