1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معصوم بچوں کے ہاتھوں کے بنے چمڑے کے مہنگے جوتے

بینش جاوید، روئٹرز
1 جنوری 2018

بھارت کے نامور سیاحتی شہر آگرہ میں ہزاروں بچے اسکول جانے کے بجائے جوتے بنانے والی فیکڑیوں میں ہر روز کئی کئی گھنٹے انتہائی مشکل حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ جوتے ان بچوں کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

https://p.dw.com/p/2qBw3
Indien Kinder nähen Schuhe für globalen Markt
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/F. Khan

تاج محل کے شہر آگرہ میں ہر سال جوتوں کے لگ بھگ دو سو ملین جوڑے بنائے جاتے ہیں۔ جوتوں کی فیکڑیوں میں شہر کی آبادی کا قریب ایک چوتھائی حصہ ملازمت کرتا ہے۔ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اس شہر میں جوتے بنانے کے بہت سے کارخانے ایسے ہیں جو گھروں میں قائم ہیں یا پھر غیر سرکاری طور پر چلائے جا رہے ہیں۔ ان میں چھوٹے بچے ہاتھ اور مشین سے جوتوں کی سلائیاں کرتے ہیں اور اس کے علاوہ جوتوں کی پیکنگ بھی کرتے ہیں۔

ایک غیر سرکاری تنظیم ایم وی فاؤنڈیشن کے رکن وین کاٹ ریڈی کا کہنا ہے،’’ ان بچوں کے لیے اسکولوں کی سہولت ہی موجود نہیں جو ان بچوں کی ملازمت کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔‘‘ ریڈی کا کہنا ہے کہ ہمیں تحقیق سے یہ پتا چلا کہ بچوں کے کام کرنے کے اوقات کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ ان میں سے اکثر گھروں میں قائم کارخانوں میں کام کرتے ہیں۔ یہ بچے کام کے دوران آرام کا وقفہ بھی نہیں لیتے کیوں کہ انہیں جوتے کے ہر جوڑے کی تیاری کے حساب سے پیسے دیے جاتے ہیں۔ ریڈی نے مزید بتایا،’’ ان بچوں کے پاس کھیل کے لیے وقت نہیں۔ یہ چھوٹے گروپوں میں انتہائی چھوٹے اور بغیر کھڑکیوں والے کمروں میں کام کرتے ہیں۔‘‘

Indien Kinder nähen Schuhe für globalen Markt
جوتوں کی فیکڑیوں میں شہر کی آبادی کا قریب ایک چوتھائی حصہ ملازمت کرتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/A. Zargar

ایک سروے کے مطابق جوتوں کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے بچوں کا صرف نصف اسکول جاتا ہے۔ بھارت دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ جوتے اور چمڑے کی مصنوعات بنانے والا ملک ہے۔ اس جنوبی ایشائی ملک کی جوتوں کی برآمدات کا نوے فیصد یورپ بھیجا جاتا ہے۔ ’انڈیا کمیٹی آف دی نیدر لینڈز‘ نامی ایک تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی چمڑے کی صنعت میں لگ بھگ ڈھائی لاکھ افراد  انتہائی کم اجرت کے ساتھ مضر صحت ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔

’فیئر لیبر ایسوسی ایشن‘ نامی تنظیم کی ایک تحقیق کے مطابق آگرہ کی کچھ فیکٹریوں نے جو اپنا مال بیرون ملک برآمد  کرتی ہیں، بچوں سے کام لینے کے خلاف اقدامات اٹھائے ہیں۔ تاہم ان میں سے بہت سی بڑی کمپنیاں چھوٹے کارخانوں کے ساتھ کاروبار کرتی ہیں جہاں زیادہ تر بچے ہی جوتے بنانے کا کام کرتے ہیں۔ ’سٹاپ چائلڈ لیبر کولیشن‘ کی سوفی اووا کا کہنا ہے کہ آمدنی میں بہتری، کمیونٹی کی جانب سے بچوں سے کام کرانے کے عمل کی حوصلہ شکنی اور قواعد و ضوابط میں تبدیلی سے ممکن ہے کہ بچوں کے حقوق کی پامالی کو روکا جاسکے۔

بریسلٹ بھارت کے نومولود بچوں کی زندگیاں بچانے کا سبب