مقتول روسی اپوزیشن رہنما نیمزوف کی برسی، پوٹن کے خلاف ریلی
27 فروری 2017روسی دارالحکومت ماسکو سے پیر ستائیس فروری کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس ریلی کے شرکاء مقتول اپوزیشن رہنما بورس نیمزوف کی بڑی بڑی تصویروں کے علاوہ روس کے قومی پرچم بھی اٹھائے ہوئے تھے اور انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے دارالحکومت ماسکو کی سڑکوں پر مارچ کیا۔
پوٹن سے متعلق سوال پر ٹرمپ کا حیران کن جواب، کریملن ناراض
گھریلو تشدد پر سزاؤں میں نرمی، روسی خواتین پریشان
روس کے ساتھ روابط، ’ٹرمپ کے مشیر کے خلاف تفتیش‘
اس ریلی کے منتظمین کے مطابق اس مظاہرے میں روسی حزب اختلاف کے قریب پندرہ ہزار کارکنوں نے شرکت کی جبکہ پولیس کے مطابق یہ تعداد تقریباﹰ پانچ ہزار تھی۔ اس موقع پر روسی سکیورٹی دستوں نے ریلی میں شامل اپوزیشن مظاہرین کو مسلسل اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔
اس یادگاری مارچ میں شریک ایک بزرگ روسی خاتون شہری گالینا سولینا نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم اس احتجاجی مارچ میں اس لیے شریک ہیں کہ ہم بورس نیمزوف کی ایمانداری اور ہمت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے روسی حکام کو یہ بھی بتا سکیں کہ آج دو پورے برس بیت گئے ہیں لیکن روس ابھی تک بورس نیمزوف کو نہ بھولا ہے اور نہ ہی بھولے گا۔‘‘
اس بارے میں اے ایف پی نے یہ بھی لکھا ہے کہ روسی حکام نے نیمزوف کی برسی کے موقع پر اپوزیشن مظاہرین کو سخت حفاظتی انتظامات کے تحت ایک احتجاجی ریلی نکالنے کی اجازت تو دے دی تھی تاہم شرکاء کو ان کی خواہشات کے برعکس اس بات سے منع کر دیا گیا تھا کہ وہ مارچ کرتے ہوئے اس جگہ تک بھی جائیں جہاں دو ہزار پندرہ میں نیمزوف کو قتل کیا گیا تھا۔
اس مظاہرے کے دوران شرکاء نے ایسے پلے کارد بھی اٹھا رکھے تھے، جن پر کریملن کی سیاست پر تنقید کرتے ہوئے مختلف نعرے درج تھے اور ساتھ ہی مشرقی یوکرائن کے تنازعے میں روسی موقف کو بھی واضح تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
پوٹن نے ٹرمپ کی مدد کرنے کے ’احکامات‘ دیے، امریکی خفیہ ادارے
’پوٹن دنیا کی طاقتور ترین شخصیت‘، امریکی بزنس میگزین فوربز
اس یادگاری مارچ کے دوران ایک نامعلوم شخص نے روس کے سابق وزیر اعظم میخائل کاسیانوف کے چہرے پر احتجاجاﹰ سبز رنگ کا ایک محلول بھی پھینک دیا۔ یہ محلول کوئی زہریلا مواد نہیں تھا اور اس واقعے کے بعد کاسیانوف اس احتجاجی ریلی کے قیادت کرتے ہوئے دیگر شرکاء کے ساتھ اس مارچ میں شامل رہے۔
بورس نیمزوف موجودہ روسی صدر پوٹن کے سخت ناقد اور روس کے ایک ایسے انتہائی سرکردہ اپوزہشن رہنما تھے، جنہیں ٹھیک دو برس قبل ستائیس فروری 2015ء کے روز دارالحکومت ماسکو میں کریملن سے کچھ ہی فاصلے پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
اپنے قتل کے وقت نیمزوف اپنی شریک حیات کے ساتھ کریملن کے قریب ہی پیدل ایک پل پار کر رہے تھے۔ اس قتل کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی تھی اور اس سلسلے میں چیچنیہ سے تعلق رکھنے والے پانچ مبینہ ملزمان کو گزشتہ برس اکتوبر سے اپنے خلاف عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔
ان ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر 15 ملین روسی روبل یا قریب ڈھائی لاکھ یورو کی رقم کے بدلے کرائے کے قاتلوں کے طور پر بورس نیمزوف کو نشانہ بنایا تھا۔ تاہم نیمزوف کے اہل خانہ اور سیاسی حامیوں کے مطابق اس قتل کی اب تک کی جانے والی تفتیش میں روسی حکام نے یہ وضاحت کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی کہ مبینہ ملزمان کو مالی ادائیگی کرتے ہوئے اس سیاسی قتل کا حکم کس نے دیا تھا۔