1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مقدونیا کی آزادی کی ایک دہائی

عدنان اسحاق21 مئی 2016

یورپی یونین میں شامل ہونے کا خواہش مند ملک مقدونیا ہفتے کے روز سربیا سے اپنی آزادی کی دسویں سال گرہ منا رہا ہے۔ بحیرہ آڈریاٹک پر واقع اس ملک کے پچھلے دس سالوں پر ایک نظر۔

https://p.dw.com/p/1IsEX
تصویر: Dnevnik

مقدونیا کا دارالحکومت پودگوریتسا ہے۔ سربیا سے مقدونیا کی آزادی کا معاملہ متنازعہ نہیں تھا بلکہ یہ عمل ایک عوامی ریفرنڈم کے ذریعے ممکن ہوا تھا۔ اس ریفرنڈم میں معمولی سی اکثریت نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا تھا اور اسی وجہ سے مختلف حلقے غیر شفافیت کے الزامات بھی عائد کرتے ہیں۔ مقدونیا کی ایک جانب بحیرہ آڈریاٹک ہے، جو اسے اٹلی سے الگ کرتا ہے جب کہ دوسری جانب پہاڑ ہیں۔

بلقان خطے کے سیاست دان اپنے سخت رویے کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ مقدونیا میں میلو دوکانوچ 1991ء سے یا تو ملک کے وزیراعظم ہیں یا پھر سربراہ مملکت۔ ناقدین کہتے ہیں کہ دوکانوچ مقدونیا کو اپنی نجی ملکیت سمجھتے ہیں۔ تاہم 54 سالہ دوکانووچ تنقید پر کان نہیں دھرتے اور نہ ہی وہ اپنے مخالفین سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔

مقدونیا میں ایک عام ملازم کی تنخواہ کم از کم 480 یورو کے برابر ہے اور اس ملک میں بے روزگاری کی شرح 15 فیصد ہے۔ اس طرح اس ملک کے تقریباً ساڑھےچھ لاکھ شہریوں کے حالات پڑوسی ملک سربیا سے بہتر ہیں۔ ساتھ ہی اس ملک میں بدعنوانی بھی کچھ کم نہیں ہے لیکن حکومت اسے تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ کہتے ہیں کہ 1990ء کی دہائی میں اطالوی دفتر استغاثہ نے صدر دوکانوچ پر سگریٹ کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے تھے۔

Mazedonien Parlament in Skopje
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/G. Licovski

مقدونیا میں حزب اختلاف تو موجود ہے لیکن ٹکڑوں میں بٹی ہوئی۔ اسی وجہ سے میلو دوکانوچ کسی نہ کسی انداز میں اتنے طویل عرصے سے اقتدار میں ہیں۔ تمام مخالف جماعتیں آج تک اس بات پر ہی متفق نہیں ہو سکیں کہ کیا دوکانوچ کو اقتدار کے ایوانوں سے نکالا بھی جائے یا نہیں۔ ایسی افوہیں بھی ہیں کہ حزب اختلاف کے کئی رہنما دوکانوچ کے پٹھوں ہیں اور وزیراعظم دوکانوچ نے انہیں خریدا ہوا ہے۔

دوسری جانب دوکانوچ کے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں شامل ہونے کے فیصلے سے مقدونیا کا روایتی حریف روس ناراض ہو سکتا ہے۔ حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ملک میں شدید مظاہرے بھی ہوئے تھے تاہم یہ جمعرات کو برسلز میں واقع نیٹو کے ہیڈ کوارٹر میں رکنیت کے معاہدے پر دستخط ہونے والے ہیں۔

یوگوسلوایہ اب ختم ہو چکا ہے لیکن ماضی میں اس کا حصہ رہنے والی قوموں پر بنائے جانے والے لطیفے آج بھی موجود ہیں۔ ان میں سلوینیا کے لوگوں کو کنجوس، بوسنیا والوں کو بے وقوف اور مقدونیا کے باسیوں کو سست اور کاہل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔