1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملائیشیا کے بُھلا دئے جانے والے باشندے

21 جولائی 2010

ملائیشیا کے روشنی سے جگمگاتے دارلحکومت کوالا لمپور سے چند گھنٹوں کی مسافت پر ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کے باسیوں کی حالت زار دیکھنے والا کوئی بھی نم دیدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

https://p.dw.com/p/OQQr
متاثرین میں بڑی تعداد بچوں کی ہےتصویر: AP

برہنہ جسم بچوں کی بھوک اور افلاس کا اندازہ اُن کی جسمانی ساخت سے ہوتا ہے۔ ہڈیوں کے ڈھانچے بتاتے ہیں کہ یہ بچے سخت غذائی قلت کا شکار ہیں۔

ایک ٹوٹے پھوٹے جھونپڑے میں لاغر جسم والی عورت اپنی چھاتی سے ایک نومولود بچے کو لگائے بیٹھی ہے۔ وہ کوشش کر رہی ہے کہ شاید اس کے بچے کو ماں کے دودھ کے چند قطرے نصیب ہو جائیں۔ اس ماں کے ارد گرد کئی ننگ دھڑنگ، سوکھی سوکھی ٹانگوں اور بڑے پیٹ والے بچے پھر رہے ہیں۔ ان کا بڑا پیٹ علامت ہے اُس بیماری کی جو غربت اور افلاس زدہ زیادہ تر علاقوں کے بچوں کو ہوتی ہے۔ پیٹ میں کیڑے کی بیماری۔

Flash-Galerie Malaysia, Kuala Lumpur Petronas Towers
دارالحکومت کوالالمپورتصویر: AP

یہ ہے ملائیشیا کے مقامی قبائیلی باشندوں کا گاؤں ’برتانگ لاما‘۔ ان قبائلیوں کو ’سمائی لوگ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ باشندے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف یہ کثیرالثقافتی ملک جدیدیت کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

جزیرہ نما ملائیشیا کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھنے والے Titiwangsa کوہستانی علاقے کے نزدیک ’چیروہ‘ نامی ایک چھوٹا سا قصبہ واقع ہے۔ جو ملائیشیا کی تیسری بڑی ریاست ’پاہنگ‘ کے قلب میں ہے۔ اس قصبے میں ’برتانگ لاما‘ گاؤں واقع ہے جس میں 300 ’سمائی قبائلی‘ آباد ہیں۔ یہ باشندے ماضی میں کبھی خانہ بدوش ہوا کرتے تھے۔ اب یہ اس جگہ آباد ہو گئے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ انہیں کوالالمپور حکومت دیگر ملائیشی باشندوں کی طرح بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرے۔ مثلاً پانی، بجلی، ادویات، بنیادی تعلیم اور ہموار سڑکیں۔ سمائی قبائلیوں کے گاؤں میں کھانے پینے کی اشیاء کی قلت ہے۔

ان لوگوں کا گزارا زیادہ تر جنگلات سے حاصل ہونے والی رتن کھجور بیل اور ایک لیس دار لکڑی پر ہوتا ہے۔ ان لوگوں کے پاس نہ تو پیسے ہوتے ہیں نہ ہی دیگر ذرائع جن کی مدد سے یہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کر سیکں۔ تاہم ان جنگلات کی کٹائی اور ان کی صفائی کے بعد سے وہاں ربر اور تاڑ کے درخت بڑی تعداد میں اگنے لگے ہیں۔

Najib Abdul Razak
ملائیشیا کے وزیر اعظم نجیب عبدالرزاقتصویر: AP

ایک اندازے کے مطابق جزیرہ نما ملائیشیا میں تقریباً 45 ہزار سمائی قبائلی باشندے آباد ہیں۔ جبکہ ڈیڑھ لاکھ مقامی لوگ 19 مختلف زبانیں بولنے والے گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ باشندے ملائیشیا کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔

ایک ماہر بشریات Colin Nicholas کے مطابق ’برتانگ لاما‘ کے باشندوں اور ان جیسے کئی دوسرے قبائلی گروپوں نے 1950 ء میں کمیونسٹ باغیوں کو کچلنے کی برطانوی کارروائی میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔ کیونکہ جنگلات میں زندگی بسر کرنے والے یہ لوگ در پردہ حملے کرنے اورٹریکنگ میں مہارت رکھتے ہیں۔ تاہم اس کے بعد سے ان قبائلیوں کو بالکل بھلا دیا گیا ہے۔ اب یہ ناگفتہ صورتحال میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

رپورٹ: کشور مصطفٰی

ادارت : شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں