1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملالہ کے خلاف تقریر، اے آر وائی نیوز کو نوٹس جاری

امتیاز احمد12 فروری 2016

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے خلاف ’نفرت انگیز‘ مواد نشر کرنے پر پاکستان کے مشہور نیوز چینل اے آر وائے کو انتباہی نوٹس جاری کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hudl
USA Film Malala - Ihr Recht auf Bildung Premiere Malala Yousafzai
تصویر: picture-alliance/Geisler/D. Van Tine

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی طرف سے اے آر وائی نیوز کو جاری کیے جانے والے انتباہی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ سات فروری کو نشر کیے گئے ایک پروگرام میں ملالہ یوسف زئی کے خلاف نفرت انگیز مواد نشر کیا گیا تھا اور اس وجہ سے ان کی زندگی کو مزید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ جاری ہونے والے انتباہی نوٹس کے مطابق اٹھارہ سالہ ملالہ کے خلاف ’غیرمہذب اور نامناسب‘‘ زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ’ایک سوال‘ نامی ٹاک شو میں ملالہ کو ایک ’’غدار جبکہ اللہ اور اس کے رسول کی گستاخ‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس ملالہ یا اس کے خاندان کی زندگیوں کو مزید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ اے آر وائے چینل پر ڈاکٹر دانش ’ایک سوال‘ کے نام سے اپنا ٹاک شو کرتے ہیں اور سات فروری کو نشر ہونے والے ان کے پروگرام میں وہ متنازعہ سوالات اٹھائے گئے، جو حساس مذہبی نوعیت کے ہیں اور ان کے بارے میں ملالہ اپنی کتاب میں لکھ چکی ہیں۔

پیمرا کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ’’شو کے میزبان اور مہمانوں نے ملالہ یوسف زئی اور ان کے خاندان سے متعلق ایسے الفاظ کا ستعمال کیا، جنہیں بلا شبہ نفرت انگیز کہا کا سکتا ہے جبکہ قانون اور آئین کے تحت ایسے الفاظ کا استعمال سختی سے منع ہے۔‘‘

اس نوٹس میں بات کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’کسی کو غداری، کفر، ملک دشمن یا اسلام کا دشمن قرار دینے کے سرٹیفکیٹ جاری کرنا ٹی وی اینکرز یا پھر ٹی وی پروگرام کے شرکاء کا کام نہیں ہے۔ اس طرح کا مواد نشر ہو رہا ہے، جس سے کسی کی زندگی خطرے میں پر سکتی ہے۔‘‘

ملالہ یوسفزئی پاکستانی طالبان کے ایک حملے میں زخمی ہو گئی تھیں، جس کے بعد انہیں برطانیہ منتقل کر دیا گیا تھا۔ وہ اب بھی اپنے اہلخانہ کے ہمراہ وہاں پر ہی قیام پذیر ہیں لیکن پاکستان میں جہاں ان کو پسند کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، وہاں ان کو ہدف تنقید بنانے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔