1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملالہ یوسفزئی کی امریکی صدر سے اپیل

28 جنوری 2017

ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے مہاجرین پر پابندی عائد کرنے سے ان کا ’دل ٹوٹ گیا ہے‘۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹرمپ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کریں کیوں کہ یہ بے گھر افراد دنیا کا ’سب سے زیادہ بے کس طبقہ‘ ہے۔

https://p.dw.com/p/2WYcz
Malala Yousafza Nobelpreisträgerin in Kenia
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Senosi

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے نوبل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ امریکا میں مہاجرین پر لگائی جانے والی پابندی پر دکھی ہیں اور چاہتی ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کریں۔

 صدر ٹرمپ: ’صرف امریکا کی حمایت کرنے والوں کو امریکا آنے دیا جائے گا‘

مسلمانوں کی امریکا آمد محدود بنانے کا منصوبہ ’پابندی‘ نہیں

مہاجرین اور سات ملکوں کے شہریوں کے امریکا داخلے پر پابندی کا منصوبہ

جمعے کے دن ایک نشریاتی انٹرویو میں ملالہ نے کہا، ’’آج میرا دل ٹوٹ گیا ہے کیوں کہ صدر ٹرمپ نے تشدد اور جنگوں سے فرار ہونے والے بچوں اور والدین کے لیے اپنے ملک کے دروازے بند کر دیے ہیں۔‘‘

انیس سالہ ملالہ یوسفزئی کا کہنا تھا، ’’دنیا میں پھیلی بے یقینی اور بے امنی کے اس دور میں صدر ٹرمپ سے کہوں گی کہ وہ دنیا کے بے کس بچوں اور والدین کو نظر انداز نہ کریں۔‘‘

ملالہ نے مزید کہا کہ امریکا نے ماضی میں ہمشیہ مہاجرین اور تارکین وطن کو خوش آمدید کہا، جنہوں نے امریکا کی ترقی میں اہم کردار بھی ادا کیا۔ تاہم اب معلوم ہوتا ہے کہ امریکا اپنے قابلِ فخر ماضی سے منہ موڑ رہا ہے۔

پاکستان میں بچیوں کی تعلیم کے لیے مہم چلانے والی ملالہ یوسفزئی کو سن دو ہزار بارہ میں طالبان نے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ تاہم اب بھی وہ اس مقصد کی خاطر اپنی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہی کوششوں کے اعتراف میں انہیں سن 2014 میں امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔

ملالہ کے بقول، ’’میرا دل ٹوٹ گیا ہے کہ شامی مہاجر بچے، جو گزشتہ چھ برسوں سے خانہ جنگی کے شکار ہیں، کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ بچے ہیں، جن کا اس تنازعے میں کوئی کردار نہیں لیکن پھر بھی وہ مشکلات کا شکار ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک میں مہاجرین کے داخلے پر چار ماہ کے لیے مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے اس فیصلے کو امتیازانہ اور متعصبانہ قرار دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق شامی خانہ جنگی کے باعث کم ازکم تین لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد مہاجرت پر مجبور ہو چکی ہے۔