1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملک بدريوں کے ليے شام کی صورتحال کا دوبارہ جائزہ ليا جائے

29 نومبر 2017

روس اور ایران کی مدد سے شامی صدر بشار الاسد کی حکومت نے ملک ميں دہشت گرد تنظيم داعش کے خلاف کئی علاقوں میں کاميابی حاصل کر لی ہے۔ لیکن خانہ جنگی کے بعد شام کتنا محفوظ ہے؟

https://p.dw.com/p/2oUnQ
USA Syrische Flüchtlinge sind für ein Tag Touristen in New Yorker
تصویر: Getty Images/AFP/D. Emmert

جرمنی میں قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین اور صوبہ باويريا ميں اس کی اتحادی پارٹی کرسچن سوشلسٹ یونین کے وزراء افغان ماجرين کی طرز پر جرائم پیشہ شامی  مہاجرین کو بھی جرمنی سے ملک بدر کرنا چاہتے ہیں۔ اسی حوالے سے آئندہ ہفتے لائپزگ میں شروع ہونے والی صوبائی وزرائے داخلہ کی ایک کانفرنس میں اس تجويز پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ڈریسڈن میں سیکسنی ریاست کے وزیرِ داخلہ نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ باویریا اور سیکسنی کے وزرائے داخلہ نے خانہ جنگی سے متاثرہ ممالک کی صورتحال پر دوبارہ نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔

اس پيش رفت پر سی ڈی یو کے ايک رکن ریسورٹ شیف کا کہنا تھا کہ اس مطالبے کا مقصد خاص طور پر شام کی موجودہ صورتحال کا  از سر نو جائزہ لينا ہے تاکہ جرائم ميں ملوث مہاجرین کو جرمنی سے ملک بدر کیا جا سکے۔‘

جرمن صحافیوں کی تنظیم (آر این ڈی) سمجھتی ہے کہ دوبارہ نظرثانی کی رپورٹ میں شام کو حفاظتی ملک قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی نوعیت کی ایک دوسری درخواست میں سیکسن ریاست نے مطالبہ کیا ہے کہ شامی مہاجرين کی ملک بدری پر پابندی کی مدت ميں توسیع نہیں کی جائے۔ اس وقت يہ پابندی آئندہ برس جون تک لاگو ہے۔ تاہم سوشلسٹ سیاسی جماعت (ایس پی ڈی) کے صوبائی وزرائے داخلہ کی جانب سے امکان ہے کہ یہ درخواست مسترد کر دی جائے کیونکہ يہ جماعت شامی مہاجرین کی ملک بدری ميں سن 2018 تک توسیع کا ارادہ رکھتی ہے۔

دوسری جانب جرمن وفاقی پارلیمان میں اسلام مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی کی جانب  سے شامی مہاجرین کی وطن واپسی کی درخواست زیادہ توجہ حاصل نہیں کر سکی۔ چند ارکانِ پارلیمان کا کہنا تھا کہ شام کہ کچھ علاقوں میں داعش کے خلاف برتری کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں امن و امان کی صورتحال بحال ہوگئی ہے۔

م‍زید شام میں گزشتہ چھ سال سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے چار لاکھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرین کے مطابق جن علاقوں میں پر امن حالات ہیں وہاں لوگ واپس جا رہے ہیں۔ ان مہاجرین میں زیادہ تر وہ پناہ گزین شامل ہیں جو تُرکی، لبنان، اردن اور عراق میں مقیم ہیں۔