1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ملک بدری یقینی موت ہو گی‘: پاکستانی مہاجر کو رکوانے کی کوشش

شمشیر حیدر کے این اے
2 ستمبر 2017

اڑتیس سالہ علی طالبان کے ہاتھوں مرتے مرتے بچا تھا،اس کے جسم پر گولیوں اور زخموں کے نشانات اب بھی موجود ہیں۔ وہ پناہ کی تلاش میں پاکستان سے جرمنی آ گیا تھا۔ لیکن اب اسے جرمنی سے وطن پاکستان بھیج دیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2jFcj
Demonstration gegen Abschiebung von Flüchtlingen Maghreb Staaten Demo
تصویر: picture alliance /dpa/M.Balk

علی نے اپنی شرٹ ہٹائی تو اس کے جسم پر موجود زخموں کے نشانات اس پر کیے گئے بدترین تشدد کی نشاندہی کر رہے تھے۔ علی کہنے لگا، ’’یہ طالبان نے کیا تھا۔ انہوں نے ایک جگہ بم چھپا رکھا تھا اور میں نے اس کے بارے میں سب کو بتا دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے پکڑ لیا اور مجھ پر تشدد کیا۔‘‘ علی کو پاؤں پر بھی گولیاں ماری گئی تھیں، ان زخموں کے نشان بھی اب تک باقی ہیں۔

یونان سے ترکی ملک بدر ہونے والوں میں پاکستانی سرفہرست

جرمنی سے مہاجرین کو ملک بدر کر کے یونان بھیجا جائے گا، یونان

اس واقعے میں جان بچ جانے کے بعد علی نے پاکستان چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا تھا اور ایک طویل اور کٹھن سفر کے بعد بالآخر وہ سن 2014 میں جرمنی پہنچ گیا تھا، اور یہاں اس نے سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرا دی تھی۔

علی اب جرمن شہر آؤگسبرگ کے ایک نواحی علاقے میں تارکین وطن اور مہاجرین کے لیے مختص ایک رہائش گاہ میں مقیم ہے۔ جرمنی میں اس کے کئی آپریشن بھی ہوئے اور اب اس کی صحت قدرے بہتر ہے۔ لیکن وہ مزید علاج کے لیے ابھی تک ڈاکٹروں کے پاس جاتا ہے۔

تاہم اب جرمن حکام نے اس کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد کر دی ہے، جس کے باعث اسے ممکنہ طور پر جلد ہی وطن لوٹنا پڑے گا۔ واپس اسی ملک میں، جہاں وہ ایک مرتبہ موت کا سامنا کر چکا ہے اور شاید وہاں اب بھی موت ہی اس کی منتظر ہو گی۔

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے

بی اے ایم ایف نے اس کی پناہ کی درخواست مسترد کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں علی کے لیے کئی محفوظ جگہیں موجود ہیں، جہاں وہ طالبان کی پہنچ سے دور محفوظ طور پر اپنی زندگی بسر کر سکتا ہے۔

لیکن پاکستان کے شمالی علاقے کے رہائشی علی کا کہنا ہے کہ اگر وہ وطن واپس گیا، تو طالبان اسے ڈھونڈ ہی لیں گے، ’’گھر واپس گیا تو میں یقینی طور پر مارا جاؤں گا، طالبان مجھے بھولے نہیں ہیں۔‘‘ علی نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کر رکھی ہے اور اسے امید ہے کہ اپیل کے بعد اسے جرمنی میں پناہ دے دی جائے گی۔

آؤگسبرگ میں کیتھولک کلیسا کی ایک فلاحی تنظیم کاریتاس سے وابستہ تھوماس فشٹل علی کی ملک بدری رکوانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ فشٹل نے بی اے ایم ایف کی جانب سے علی کی پناہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس وفاقی جرمن دفتر نے علی کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔

لیکن کیا بی اے ایم ایف کی اس وضاحت میں کوئی حقیقت نہیں کہ پاکستان میں علی کے لیے واقعی کئی محفوظ علاقے موجود ہیں؟ اس کیتھولک تنظیم کے ترجمان بیرنہارڈ گاٹنر اس بات سے متفق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں طالبان کا نیٹ ورک کافی منظم ہے اور علی کی ’پاکستان واپسی کا مطلب یقینی موت ہو گا‘۔

گاٹنر کا کہنا ہے کہ جرمن حکام کی طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہ علی جیسے افراد کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کر کے پناہ اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین اور عالمی معیارات کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

علی شادی شدہ ہے اور اس کے تین بچے ہیں۔ اس کے بقول پاکستان میں اس کے اہل خانہ بھی اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر ملک کے اندر ہی لیکن ایک اور مقام پر منتقل ہو چکے ہیں، اور وہ ابھی تک طالبان ہی کے خطرے کے باعث خاندان کے دیگر افراد سے کوئی رابطہ بھی نہیں کرتے۔

جرمنی میں اس سال اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ ملی؟

پاکستانی تارکین وطن کی واپسی، یورپی یونین کی مشترکہ کارروائی