1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

منظر پس منظر، دنیا میں صحراﺅں کو لاحق خطرات

8 جون 2006

ماہرین کا کہنا ہے کہ صحراﺅں کے منفرد مناظر ، قدیم صحرائی ثقافتیںاور مخصوص صحرائی پودے اور جانور تیزی کے ساتھ ختم ہوتے جارہے ہیں جن کو بچانے کے لئے فوری اقدام کی ضرورت ہے ۔

https://p.dw.com/p/DYL9
تصویر: AP

اقوام متحدہ نے سن 2006 کوصحرا اور صحرا زدگی کا سال قرار دیا ہے اور دنیا میں ریگستانوں اور صحراﺅں کی صورتحال پر اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کے صحرا پانی کی قلت ، آب و ہوا میں تبدیلی اور بعض دوسرے اسباب کی بنا پر شدید خطرے سے دوچار ہیں۔

اس رپورٹ میں صحرا کے ایکو سسٹم میں انسانی حیات کو باقی رکھنے کے لئے پانی کے ذخائر کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ ماحولیات کے سربراہ شفقت کاکاخیل کا کہنا ہے کہ صحراﺅں کا شمار حیاتیاتی، ثقافتی اور اقتصادی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن نئے حالات نے صحراﺅں کی حیاتیاتی ، ثقافتی اور اقتصادی حیثیت کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

اس وقت کرہ ارض کی خشکی کا ایک چہارم حصہ صحراﺅں پر مشتمل ہے اور اس میں 500 ملین افراد زندگی بسر کرہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق صحرائی علاقوں میں پانی کی حفاظت کے سلسلے میں انتظامی خرابیوں کی وجہ سے چاڈ ، عراق ، نائیجر اور شام جیسے ممالک کو سن 2050 تک پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ بعض ایسے اقتصادی مواقع موجود ہیں جن سے صحراﺅں کو ناکارہ اور بنجر ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر صحرائے افریقہ کا ایک طویل علاقہ ویران پڑا ہے لیکن اگر وہاں پر سولر بجلی گھر قائم کر دیا جائے تو اس سے پوری دنیا کو بجلی فراہم کی جاسکتی ہے اور یوں زمین پر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا بھی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق صحراﺅں کی حیاتیاتی حیثیت کو باقی رکھنے میں گلیشیرز کا بہت اہم کردار ہے جو دریاﺅں کو وجود میں لانے اور ان کو باقی رکھنے کا باعث بنتے ہیں کہ جن پر صحرائی زندگی کا بہت زیادہ دارو مدار ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس صدی کے اختتام تک ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے چالیس فی صد گلیشیر ختم ہو جائیں گے۔ماہرین صحرا زدگی یا desertification میں قدرتی وجوہات کے ساتھ ساتھ انسان کے ہاتھوں پہنچے والے نقصانات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ بہت سی قدرتی اورطبعی وجوہات پر قابو پانا آسان نہیں ہے لیکن جو مشکلات خود انسان نے اپنے ہاتھ سے کھڑی کی ہیں ان کو دور کرنے کے لیے خاص طور پر کوشش کی جانی چاہیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سڑکوں کی تعمیر، آلودگی اور شکارنے صحرا ﺅں کی نباتیاتی اور حیاتیاتی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہےجبکہ اس سلسلے میں سیاسی عدم استحکام کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ جس کی وجہ سے فوجی مشقوں، قیدیوں کے لئے خفیہ جیل خانوں اور رفیوجی کیمپ بنانے کی ضرور ت پیدا ہوتی ہے جوصحرائی حیات کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ صحرا خوراک کی فراہمی اور ادویات کی تیاری میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسرائیل کے Negev صحراءمیں پائے جانے والے پودوں میں سرطان اور ملیریا کے علاج کے خواص پائے گئے ہیں۔ اسی طرح ارجنٹائن اور مراکش کے صحراﺅں میں پائے جانی والی جڑی بوٹیوں میں بہت سے بیماریوں کے علاج کی صلاحیت کو دیکھا گیا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی تک صحراﺅں کی طبی صلاحیت کو صحیح طرح ریکارڈ نہیں کیا جا سکا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے بھی کہا ہے کہ دنیا کے خشک صحرائی علاقوںاور خاص طور پر افریقہ کو desertification سے نہ روکا گیا تو غربت اور جنگوںمیں خطرناک حد تک اضافہ ہو جائے گا۔کوفی عنان نے ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ desertification دنیا میں خاص طور پر افریقہ اور جنوبی ایشیا میں شدیدغربت اور تدریجا کم ہونے والے ذخائر پر جنگ و جدل کا باعث بن رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں زمین کے سلسلے میں بد انتظامی اور موسم کی تبدیلی خشک زمینوں کو صحراﺅں میں تبدیل کر رہی ہے جو دنیا میں غربت میں اضافے کا باعث ثابت ہو گی۔کوفی عنان نے کہا کہ اس وقت 10 سے 20 فی صد خشک زمینیں اور زیادہ بنجر اور خشک ہو چکی ہیں جو شدید بھوک و افلاس کو ختم کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

اس حوالے سے الجزائر کے صدر Abdelaziz Bouteflikaنے بھی اس موقع پر desertification کا مقابلہ کرنے کے لئے بین الاقوامی منصوبہ بندی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ desertification اور غربت قریبی علاقوں اور ممالک تک محدود رہنے والی چیز نہیں ہے بلکہ ان کے اثرات قدرتی اور سیاسی سرحدوں سے ماوراءہوتے ہیں۔ لہذا اس کا مقابلہ کرنے کے لئے سب کومل کر کوشش کرنا ہو گی۔