1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’منقسم قبرص کا اتحاد‘

17 اپریل 2010

ترک قبرص کے صدر محمد علی طلعت نے کہا ہے کہ گزشتہ 35 برس کے بعد پہلی مرتبہ منقسم قبرص کا اتحاد منزل کے قریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اتوار کے صدارتی انتخابات میں کامیاب نہ ہوئے تو مذاکراتی عمل ریت کی دیوار ثابت ہو گا۔

https://p.dw.com/p/Myns
ترک اور یونانی قبرص کے صدور: فائل فوٹوتصویر: AP

یہ مذاکراتی عمل اقوام متحدہ کی ثالثی میں جاری ہے۔ محمد علی طلعت کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوں اب تک کی پیش رفت ضائع ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب انتخابی عمل کے حوالے سے کئے جانے والے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق محمد علی طلعت کو شکست ہو سکتی ہے۔ اُن کے حریف امیدوار درویش اروگلو کو برتری حاصل ہے۔ اروگلو اپنی انتخابی مہم میں ادغام کے بعد دونوں حصوں میں فرمانروائی کے مزید اختیارات رکھنے کےساتھ ساتھ دونوں حصوں کے شہریوں کی نقل مکانی کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ یونانی قبرص کے وزیر اعظم پہلے ہی ان شرائد کو ناقابل قبول قراردے چکے ہیں۔

Türkischer Premierminister Tayyip Erdogan
ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوغانتصویر: AP

اُدھر اروگلو نے ایک بیان میں کہا کہ وہ کامیاب ہوئے تو مذاکراتی عمل برابری کی سطح پر جاری رکھیں گے۔

محمد علی طلعت کہتے ہیں کہ وہ اور یونانی قبرص کے صدر ڈیمٹرس کرسٹوفیاس بیشتر نکات پر متفق ہو چکے ہیں۔ اس پیش رفت کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی سراہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ثالثی میں ادغام کی بات چیت 2008ء سے جاری ہیں۔ طلعت کا ماننا ہے کہ بات چیت میں سست روی سے عوام اُن سے ناراض ہوئے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ مخالف امیدوار کی کامیابی سے مذاکرات رک جائیں گے اور ترک قبرص ایک مشکل دور میں داخل ہو جائے گا۔

دوسری جانب ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوغان آئندہ ماہ یونان کا دورہ کریں گے۔ اِس کا اعلان یونان نے کیا ہے۔ اس دورے میں فوجی تعلقات کے علاوہ قبرص کے اتحاد کے معاملے کو گفتگو کے ایجنڈے پر فوقیت حاصل رہے گی۔ 2007ء میں بھی ترک اور یونانی وزرائے اعظم ملاقات کر چکے ہیں۔

قبرص کے تنازعے کو ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تصور کیا جاتا ہے۔ یونانی قبرص یورپی یونین کا رکن ملک ہے جبکہ ترک قبرص صرف ترکی ہی نے تسلیم کر رکھا ہے اور اُس کے 30 ہزار فوجی بھی وہاں موجود ہیں۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: عابد حسین