1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

منیٰ میں پاکستانیوں کی ہلاکتیں اور حکومتِ پاکستان کا کردار

شکور رحیم، اسلام آباد28 ستمبر 2015

پاکستانی حکومت نے سعودی عرب میں حج کی ادائیگی کے دوران منیٰ میں بھگدڑ کے واقعے میں اپنے چالیس حاجیوں کے ہلاک اور پینتیس کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GeoJ
تصویر: Getty Images/AFP/STR

پیر کے روز وزارت مذہبی امور کی جانب سے منی میں لاپتہ ہونے والے پاکستانی حاجیوں کی نئی فہرست جاری کر دی گئی ہے جس کے مطابق تین سو لاپتہ حاجیوں میں سے اب تک دو سو اکیس کو تلاش کر لیا گیا ہے۔

اس سے قبل مذہبی امور کے وفاقی وزیر سردار یوسف کے مطابق منیٰ میں بھگدڑ کے باعث لاپتہ ہونے والے دو سو سترہ پاکستانی حاجیوں سے رابطہ ہو گیا ہے جب کہ پچاسی حاجی ابھی تک لاپتہ ہیں۔پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے سردار یوسف کا کہنا تھا کہ وزارت مذہبی امور مسلسل متعلقہ سعودی حکام سے رابطے میں ہے اور پاکستانی حاجیوں کے کوائف جلد معلوم کر لیے جائیں گے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے نیویارک میں موجود پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے سردار یوسف کو تمام پاکستانیوں کے بارے میں معلومات حاصل ہونے تک سعودی عرب میں موجود رہنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعظم نے اسلام آباد کے ایک حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طارق فضل چوہدری کو پاکستانی حاجیوں سے متعلق معلومات کے لیے ’فوکل پرسن‘ مقرر کیا ہے۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستانی حاجیوں سے متعلق معلومات کے لیے قائم کی گئی منیٰ ہیلپ لائن پر خود فون کر کہ حاجیوں سے متعلق معلومات لیں۔ انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس کے حکام کو ہدایت کی کہ وہ لاپتہ حاجیوں کے اہل خانہ کو خود فون کر کے انہیں معلومات فراہم کریں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم کے ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بتایا کہ حکومت نے متعلقہ خاندانوں سے رابطے کے لیے خصوصی اقدامات کیے ہیں۔

دوسری جانب منیٰ میں ہلاک اور لاپتہ حاجیوں کے اہل خانہ حکومتی بے حسی کا شکوہ کرتے بھی نظر آئے۔

پاکستان کے شہر ملتان سے تعلق رکھنے والی خاتون عزیز مائی، جو منیٰ میں بھگدڑ کے دوران ہلاک ہو گئی تھیں، کے بچوں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی سفارت خانہ تعاون کرتا تو وہ اپنی والدہ کی میت ملتان میں لا کر دفنانا چاہتے تھے۔ مقامی زرائع ابلاغ سے بات کرتے وہئے عزیز مائی کے بیٹے کا کہنا تھا کہی ’’ہم اپنی شہید والدہ کو اپنے ہاتھوں اپنی مٹی میں دفن کرنا چاہتے تھے لیکن پاکستانی سفارت خانے نے تعاون نہیں کیا جس کی وجہ سے ان کی تدفین وہیں مکے میں ہی کر دی گئی ۔‘‘

لاپتہ حاجیوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام نے ردعمل میں بہت تاخیر کی ہے اور حادثے کے کئی دن بعد تک بھی وزرات مزہبی امور اور وزارت خارجہ کے حکام اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ بتا سکیں کہ اصل میں کتنے لوگ ہلاک ،کتنے زخمی اور لاپتہ ہیں ؟

تاہم وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستانی حاجیوں سے متعلق معلومات کی فراہمی کے لیے ہر طرح کے وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے کہا: ’’بھگدڑ کے دوران بہت سے حاجیوں نے اپنے موبائل فونز کھودیے، کچھ سعودی عرب میں مقیم اپنے رشتے داروں کے پاس چلے گئے جب کہ کچھ شاک میں تھے لہذا وطن میں موجود اپنے اہل خانہ سے رابطہ نہیں کرسکے۔‘‘

پرویز رشید نے مزید کہا کہ منٰی میں ہلاک ہونے والے تمام پاکستانی حاجیوں کی تدفین مکے میں کی جائے گی اور اگر ان کے رشتہ دار سعودی عرب جانا چاہیں تو حکومت ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گی۔

وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ جب تک سعودی حکام کی جانب سے باقاعدہ اعداد و شمار جاری نہیں کیے جاتے، ہلاکتوں کی تعداد مختلف ہوتی رہے گی۔

دریں اثناء مخلتف اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر منیٰ کے حوالے سے زبردست بحث جاری ہے۔ اس ضمن میں دو نقطہء نظر کے حامیوں میں تند وتیز جملوں کا تبادلہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ان میں سے ایک وہ افراد ہیں جو سعودی عرب کے حکام کی بد انتظامی کو اس سانحے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں جب کہ دوسروں کا خیال ہے کہ اس معاملے میں سعودی حکام کو ذمہ دار نہیں ٹھرایا جاسکتا بلکہ یہ مشیت ایزدی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید