1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی سرکار کشمیر کی سچائی چھپا رہی ہے: اپوزیشن کا الزام

جاوید اختر، نئی دہلی
24 اگست 2019

راہول گاندھی کی قیادت میں بھارتی اپوزیشن کے وفد کو سری نگر ہوائی اڈے سے زبردستی واپس دہلی بھیج دیا گیا۔ بھارتی حکام نے ساتھ جانے والےصحافیوں کو مارا پیٹا اور کوریج کرنے سے منع کیا۔  

https://p.dw.com/p/3ORC1
تصویر: Ians

آٹھ اپوزیشن جماعتوں کے اراکین پر مشتمل یہ وفد ہفتے کی دوپہر سری نگر پہنچا لیکن اسے چند منٹوں کے بعد ہوائی اڈے سے ہی زبردستی دہلی واپس روانہ کر دیا گیا۔ ساتھ ہی سکیورٹی فورسز نے وفد کے ہمراہ جانے والی میڈیا ٹیم کو وفد سے الگ کرکے ان پر تشدد کیا۔

وفد میں شامل راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر، سینئر کانگریسی رہنما اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے حکومت کے رویے پر سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا، ”ایک طرف تو حکومت دعوی کر رہی ہے کہ کشمیر میں حالات معمول پر ہیں دوسری طرف کسی کو وہاں جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ اگر حالات معمول پر ہیں تو سیاسی رہنماؤں کو نظر بند کیوں رکھا گیا ہے؟“

Kaschmir Protest & Unruhen in Srinagar
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin

آزاد نے اس سے پہلے بھی جموں جانے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں جموں ہوائی اڈے سے ہی واپس لوٹا دیا گیا تھا۔ انہوں نے کشمیر کی صورتحال پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا، ”بیس دن ہونے والے ہیں، بیس دن سے ہمیں صورت حال کے بارے میں کوئی خبر نہیں مل رہی ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ حالات معمول پر ہیں لیکن وہ ہمیں جانے کی اجازت کیوں نہیں دے رہی ہے؟ کیا حکومتی دعوؤں میں تضاد نہیں؟‘‘

وفد میں شامل سابق وفاقی وزیر شرد یادو نے اپنی ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا، ”جموں و کشمیر بھارت کا حصہ ہے کیا ہم بھارت کے کسی حصے میں جا نہیں سکتے؟“ بائیں بازو کی جماعت کے رہنما سیتا رام یچوری کا کہنا تھا، ”جموں و کشمیر کے گورنر نے خود ہی اپوزیشن لیڈروں سے درخواست کی تھی کہ وہ آئیں اور کشمیر کے حالات دیکھیں۔ ہم تو ان کی دعوت کا احترام کرتے ہوئے وہاں گئے تھے۔“

Kaschmir Protest & Unruhen in Srinagar
تصویر: REUTERS

رکن پارلیمان ڈی راجہ نے کہا، ”حکومت سچائی چھپا رہی ہے۔ جموں و کشمیر کے حالات کا جائزہ لیے بغیر ہمیں اس لیے واپس کیا گیا کیوں کہ حالات معمول پر نہیں ہیں۔“ وفد کے ایک اور رکن مجید میمن کا کہنا تھا، ”ہمار ا مقصد کسی طرح کی گڑبڑ پھیلانا نہیں تھا۔ ہم حکومت کی مخالفت کرنے نہیں گئے تھے۔ ہم تو وہاں حکومت کی مدد کرنے گئے تھے کہ ہم بھی مشورہ دے سکیں کہ وہاں کیا کیا جانا چاہیے۔‘‘

اپوزیشن اراکین جب دہلی سے سری نگر روانہ ہو رہے تھے اسی وقت یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ انہیں شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جموں و کشمیر انتظامیہ نے ایک ٹویٹ میں کہا، ”اپوزیشن رہنماؤں کشمیر نہ آئیں اور ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ ان کے آنے سے لوگوں کو پریشانی ہوگی۔ سینئر رہنماؤں کو سمجھنا چاہیے کہ امن وقانون برقرار رکھنے اور نقصان کو روکنے کے کام کو ترجیح دی جائے گی۔‘‘

Indien Kaschmir-Konflikt | Stacheldraht in Srinagar
تصویر: Reuters/A. Abidi



اس دوران اپوزیشن وفد کے سری نگر ہوائی اڈے پر اترنے کے بعد وہاں افراتفری کی صورت پیدا ہوگئی۔ وفد کے ساتھ دہلی سے گئی میڈیا ٹیم کو اپوزیشن لیڈروں سے الگ تھلگ کردیا گیا اور پولیس نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔ میڈیا ٹیم میں شامل نیوز چینل ’آج تک‘ کی صحافی موسمی سنگھ کا کہنا تھا، ”ہمارے ساتھ مار پیٹ کی گئی۔۔ مجھ پر خواتین پولیس اہلکار وں نے حملہ کردیا اور مجھے مارنا شروع کردیا۔“ ایک اور صحافی اشوک سنگھل کا کہنا تھا، ”میڈیا کو وفد کے اراکین کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سب کو دھکے مار کر باہر نکال دیا گیا۔ ہم سے کہا گیا کہ اس کی کوریج نہ کریں۔‘‘

مودی حکومت کی جانب سے پانچ اگست کوجموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے اعلان کے بعد سے وہاں کے بارے میں خبریں نہیں مل پارہی ہیں۔  ٹیلی فون، موبائل اورانٹرنیٹ سمیت تمام مواصلاتی ذرائع تقریباً بند ہیں اور بیشتر علاقوں میں کرفیو نافذ ہے۔

قبل ازیں کشمیر کی اس صورت حال کے حوالے سے جب اپوزیشن نے نکتہ چینی کی تو ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے راہول گاندھی کو وادی آنے کی دعوت دی کہ وہ خود آکر حالات دیکھ لیں۔ گورنر ملک نے بعد میں ایک بیان میں اپوزیشن پر اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن رہنماوں کے دورے سے مسائل پیدا ہوں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں