1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موصل کی بازیابی سے کیا عراق میں قیام امن ہو جائے گا؟

عاطف بلوچ، روئٹرز
9 جولائی 2017

نو ماہ کی طویل عسکری مہم کے بعد بالآخر عراقی فورسز موصل شہر کو داعش کے جنگجوؤں سے آزاد کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ تاہم یہ سوال برقرار ہے کہ اس پیشرفت سے کیا عراق میں قیام امن ممکن ہو سکے گا؟

https://p.dw.com/p/2gDwG
Irak Kampf um Mosul
تصویر: Reuters/Stringer

عراقی فوج نے کہا ہے کہ ملکی دستوں نے موصل کے قدیمی علاقے میں داعش کے جہادیوں کو شکست دے دی ہے جبکہ پسپائی کے شکار ان شدت پسندوں کو دریائے دجلہ کے قریبی علاقوں میں بھی زیر کر دیا جائے گا۔ امریکی فوج نے بھی کہا ہے کہ جلد ہی اس علاقے میں ان انتہا پسندوں کو مکمل طور پر شکست دے دی جائے گی۔ اس عسکری مہم میں عراقی فورسز کو امریکی عسکری اتحاد کا تعاون بھی حاصل ہے۔

موصل میں داعش کو شکست دے دی، عراقی فورسز کا دعویٰ

موصل: داعش کی شکست انتہائی قریب

داعش کی علامتی مسجد پر عراقی دستوں کا قبضہ

داعش کے انتہائی اہم تصور کیے جانے والے گڑھ موصل میں عراقی فورسز کی کامیابی کو ایک اہم کارنامہ قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس محاذ پر جہادیوں کو شکست دینے کے علاوہ عراق میں قیام امن کئی دیگر عوامل سے بھی جڑا ہے۔ موصل میں داعش کی شکست کے ساتھ ہی عراق میں ایک عشرے سے بھی زائد عرصے سے جاری نسلی اور فرقہ وارانہ تضاد واضح ہونے لگا ہے۔ انہی اختلافات کے نتیجے میں عراق میں سلامتی کی صورتحال بگڑی تھی۔

موصل کی مکمل بازیابی کے نتیجے میں وہاں فعال عرب اور کرد جنگجوؤں میں ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ ان دونوں گروہوں کے مابین علاقائی تنازعات کی تاریخ پرانی ہے۔ ساتھ ہی طاقت کے حصول کی خاطر شعیہ اور سنی گروپوں میں ایک نئی رسہ کشی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراقی آمر صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد سے ہی اس عرب ملک میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم کوئی چھپی بات نہیں ہے۔

صدام حسین کے اقتدار کے خاتمے کے بعد عراق میں سنی حکومت کو ختم کر کے وہاں ایران نواز شیعہ حکومت قائم کر دی گئی تھی۔ اگرچہ عراق شعیہ اکثریتی آبادی والا ملک ہے تاہم وہاں کئی عشروں تک سنی اقلیت ہی اقتدار میں رہی۔ عراق میں داعش کے خلاف لڑائی میں ملک کے تمام گروہ نسلی اور فرقہ ورانہ تقسیم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متحد ہو گئے تھے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اب داعش کی شکست کے نتیجے میں صورتحال ایک مرتبہ پھر پیچیدہ ہو سکتی ہے۔

بغداد حکومت کے سامنے سب سے اہم اور فوری حل طلب مسئلہ موصل کی بحالی اور تعمیر نو کا ہی ہو گا۔ امریکی عسکری اتحاد کی فضائی کارروائیوں اور زمینی لڑائی کے نتیجے میں یہ شہر تباہ و برباد ہو چکا ہے جبکہ ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ مغربی، عراقی اور کرد حکام اس بات سے پریشان ہیں کہ عراقی حکومت نے ابھی تک ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا، جس کے تحت جنگ کے بعد کی حکمت عملی ترتیب دی گئی ہو۔

جنگ کی بعد سلامتی کی صورتحال کو یقینی بنانے کی خاطر کرد ریجن نے اس تناظر میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی تھی، جس کے تحت عراقی حکومت اور امریکی عسکری اتحاد نے موصل کی قیادت کو اس شہر کی بحالی اور تعمیر نو میں مدد فراہم کرنا تھی۔ تاہم ابھی تک اس کمیٹی کا ایک بھی اجلاس منعقد نہیں ہو سکا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے سابق وزیر خزانہ اور خارجہ حسین زیباری کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم حید العبادی اس معاملے کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں، ’’جب بھی ہم اس معاملے کو اٹھاتے ہیں تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ جب تک فوجی آپریشن ختم نہیں ہو جاتا تب تک انتظار کریں۔‘‘ انہوں نے بغداد حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مزید کہا ہے کہ وفاق آئین کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہو چکا ہے۔