1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ميانمار کےبے روزگار تھائی لينڈ میں پریشان

13 جولائی 2010

ميانمار يا برما سے ملازمت کی تلاش ميں تھائی لينڈ آنے والوں کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کا اندازہ لگانے کے لئے تھائی لينڈ اور ميانمار کی ملحقہ سرحد پر واقع چيک پوائنٹ مائی سوٹ ہی کا مشاہدہ کافی ہے۔

https://p.dw.com/p/OHdx
تھائی لینڈ میں غیر قانونی برمی تارکین وطنتصویر: picture-alliance/ dpa

مائی سوٹ چيک پوائنٹ کے عملے کو اگلے مہينوں کے دوران ميانمار يا برما کے ايسے ہزاروں تارکين وطن کو ميانمار واپس بھيجنے کاکام سونپا گيا ہے جن کے پاس قانونی کاغذات اور تھائی حکام کی جانب سے جاری کردہ درست اور جائزاجازت نامے نہيں ہيں۔

مائی سوٹ کی اميگريشن جيل ميں ميانمار کے تقريباً 100 محنت کشوں کو روزانہ بند کيا جاتا ہےاور بعد ميں انہيں سرکاری يا غير سرکاری طور پردريائے موئی کے اُس پار تھائی لينڈ سے واپس ميانمار بھيج ديا جاتا ہے۔ ميانمار کے اميگريشن حکام ہر مہينےان افراد ميں سے صرف 400 کو تھائی ميانمار فرينڈ شپ پل پر سے گذر کر ميانمار ميں داخل ہونے کی اجازت ديتے ہيں۔ ہر پير کو صرف 100 افراد کو ملک ميں دوبارہ داخلے کی اجازت دی جاتی ہے۔

تاہم غير سرکاری طور پر ہزاروں افراد کو دريائے موئی پار کرانے کے بعد ايک برمی چيک پوائنٹ پر لے جايا جاتا ہےجس پر ميانمار کے فوجی حکمرانوں کے زير کمان مليشيا "ڈيموکريٹک کارن بدھسٹ آرمی" کا کنٹرول ہے۔ يہ مليشيا، تھائی لينڈ سے واپس آنے والوں سے 1200بھت واپسی فيس وصول کرتی ہے جو تقريباً اڑتيس ڈالر کے برابر ہے۔ بنکاک سے 350 کلوميٹر دور شمال ميں واقع مائی سوٹ ميں نيو ڈان ورکرز ايسوسی ايشن کے ڈائرکٹر موسوے نے کہا:"اگر وہ1200 بھت ادا کر ديتے ہيں تو انہيں فوراً رہا کر ديا جاتا ہے۔ ليکن جو يہ رقم ادا نہيں کرسکتا اسے بيرکس ميں رکھا جاتا ہے اورايجنٹوں کے ذريع رقم حاصل کرنے کے لئے اُس کے عزيزوں اور دوستوں سے رابطہ قائم کيا جاتا ہے۔کچھ تارکين وطن مزدوروں کو اس وقت تک مليشيا کے کمپاؤنڈ ميں قيد رکھا جاتا ہے جب تک کہ وہ رقم ادا نہيں کرديتے۔ موئے سوے نے، جن کی ايسوسی ايشن تھائی لينڈ ميں محنت کشوں پر زيادتيوں کی نگرانی کرتی ہے، بتايا کہ فيس نہ ادا کرسکنے والوں ميں سے بعض سے جبری کام کرايا جاتا ہے۔ جو افراد فيس ادا کرديتے ہيں، انہيں دوبارہ غير قانونی کام تلاش کرنے کے لئے تھائی لينڈ واپس لانے والے ايجنٹ ان سے مزيد 10 ہزار سے 15 ہزار بھت وصول کرتے ہيں۔

Umrüstung von Autos auf LPG-Gas in Thailand
تھائی لینڈ میں ہمسایہ ملکوں کے بےروزگاروں کے لئے بہت کشش ہےتصویر: picture alliance/dpa

نيو يارک کی، ہيومن رائٹس واچ نامی تنظيم کے ليبرايکسپرٹ فلپ رابرٹسن نے کہا: "ہميں اس پر خاصی پريشانی ہے کہ يہ سب کچھ ميانمار کے فوجی حکمرانوں کے زير کمان مليشيا کررہی ہے اور تھائی اہلکار بھی اس سے فائدہ اٹھا رہے ہيں۔ وہ لوگوں کو جان بوجھ کر اُس گيٹ تک لارہے ہيں جہاں لوٹ کھسوٹ کے بارے ميں انہيں علم ہے۔"

Umstrittene Erdgastrasse in Burma Birma Myanmar
تیل تلاش کرنے والی فرانسیسی کمپنی ٹوٹال کی جانب سے بچھائی جانے والی پائپ لائن میں کام کرتا برمی ورکر: فائل فوٹوتصویر: AP

تھائی لينڈ کی حکومت غير قانونی تارکين وطن کے خلاف تازہ ترين کارروائی کے تحت کمبوچيا، ميانماراور لاؤس کے ايسے تين لاکھ کارکنوں کی نگرانی کررہی ہے جنہوں نے جون سے اگست تک کے درميان ملک بدر کئے جانے کی قانونی حيثيت حاصل کرنے کے لئے خود کو پيش نہيں کيا ہے۔ ملک بدر کئے جانے والے ان افراد ميں سے زيادہ تر ميانمار کے شہری ہی ہيں۔ اندازہ ہے کہ تھائی لينڈ ميں ميانمار کے 20 سے 30 لاکھ تک شہری ملازمتيں کرتے ہيں۔ وہ، کارخانوں،گھروں، ماہی گيری کی صنعت، کھيتوں اورعصمت فروشی کی جگہوں پر سستے داموں کام کرتے ہيں۔

تھائی حکومت نے آجروں اورانسانی تجارت کرنے والوں کے ہاتھوں ان تارکين وطن کے استحصال سے چشم پوشی کرنے کے الزامات کے بعد پچھلے دو عشروں ميں کم از کم کچھ غير ملکی کارکنوں کو نيم قانونی حيثيت دينے کے اقدامات کئے ہيں۔

غير ملکی تارکين وطن تٌھائ لينڈ کی 64 ملين کُل آبادی کا پانچ تا چھ فيصد ہيں اور وہ ملکی اقتصاديت کی ريڑھ کی ہڈی کی سی حيثيت حاصل کرچکے ہيں جس کے بغيربڑی افرادی قوت سے چلنے والی بہت سی صنعتيں کام نہيں کرسکتيں۔ مثال کے طور پر مائی سوٹ ميں تقريباً 200 سو فيکٹريوں ميں ميانمار کے 40 ہزارتارکين وطن کارکن ملازم ہيں۔ ان ميں سے آدھے غير قانونی ہيں جنہيں روزانہ صرف 60 بھت اجرت ملتی ہے۔يہ، تھائی کارکنوں کے لئے مقرر کم ازکم اجرت کا نصف سے بھی کم ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں