1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’دکھ تو ہوا لیکن اللہ کو یہی منظور تھا‘

عاطف بلوچ اے ایف پی
29 جون 2020

سعودی حکومت کی طرف سے غیر ملکی عازمین حج کے لیے دروازے بند کر دینے کے فیصلے پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں دکھ کا پہلو نمایاں ہے۔ پاکستانی شہر ملتان کے رہائشی اصغر جعفری بھی انہی میں سے ایک ہیں لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3eUop
Saudi-Arabien - Beginn des Hadsch
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin

اصغر جعفری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ اگر وہ اس سال حج کرنے جا سکتے، تو 'مکہ میں اللہ کے گھر میں یہ ان کی پہلی حاضری ہوتی‘۔ لیکن نئے کورونا وائرس کی وجہ سے لاکھوں مسلمانوں کی طرح وہ بھی اس مرتبہ اس مذہبی فریضے کی ادائیگی سے محروم رہیں گے۔

سعودی حکام کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ملک میں سکونت پذیر ایک ہزار غیر ملکی مسلمان حج کر سکیں گے۔ گزشتہ سال دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے پچیس لاکھ مسلمان حج کی غرض سے سعودی عرب پہنچے تھے۔

یہ بھی پڑھیے: حج اس سال محدود پیمانے پر

پچاس سالہ اصغر جعفری نے کہا کہ وہ کئی برسوں سے اس کوشش میں تھے اور اس مقصد کے لیے پیسے جمع کر رہے تھے اور جب ان کے پاس وسائل آئے تو کووڈ انیس کی عالمی وبا پھیل گئی، ''مجھے انتہائی دکھ ہے لیکن میں مایوس نہیں ہوا۔ اللہ نے چاہا تو میں اپنی زندگی میں ایک مرتبہ یہ سعادت ضرور حاصل کروں گا۔‘‘

ایک بڑا مالی نقصان بھی

پاکستان میں حج ٹور آپریٹر شاہد رفیق کے مطابق، ''یہ فیصلہ ملک کے تمام مسلمانوں کے لیے دکھ کا باعث بنا ہے، بالخصوص ایسے لوگوں کے لیے جو گزشتہ کئی برسوں سے اس تیاری میں تھے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بزنس کے اعتبار سے پرائیویٹ حج آپریٹرز کے لیے بھی یہ ایک بڑا نقصان ہے، ''ہم آئندہ کئی برسوں تک اس مالی نقصان کا ازالہ نہیں کر سکیں گے۔‘‘

بزنس مین اصغر جعفری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا میں ایک بحران پیدا ہو چکا ہے اور سب کو اس بات کو سمجھنا چاہیے، ''ہمیں احتیاط کرنا چاہیے کیونکہ اب پاکستان میں بھی اس وبا کی وجہ سے زیادہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ بطور مسلمان میں سمجھتا ہوں کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہی ہے، ہم تو بس کوشش کر سکتے ہیں لیکن ہمیں کوشش ترک نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

’کورونا کو کسی گروہ سے منسوب نہیں کرنا چاہیے‘

ایک سوال کے جواب میں اصغر نے کہا کہ ایسا نہیں کہ پاکستانی مسلمان حکومتی ہدایات پر عمل نہیں کر رہے، ''بالخصوص عالمی میڈیا کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر ممالک میں مذہبی اجتماعات کی وجہ سے ہی یہ وائرس پھیلا ہے، جو کہ غلط بات ہے۔ ہمارے محلے میں سبھی لوگوں نے احتیاط کی اور نمازیں گھروں میں ادا کیں اور رمضان میں بھی احتیاط برتی گئی تھی۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: حج کا مذہبی فريضہ اہم يا صحت عامہ: سعودی حکام کشمکش ميں مبتلا

اصغر نے کہا کہ کچھ شر پسند عناصر کی وجہ سے سبھی کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں، ''اگر ہم اسلام کی درست تعلیمات پر عمل کریں تو ہم اس طرح کی وباؤں سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔‘‘ وہ پرامید ہیں کہ اس عالمی وبا پر قابو پا لیا جائے گا اور کاروبار حیات جلد ہی معمول پر آ جائے گا۔

سعودی عرب میں کووڈ انیس میں مبتلا افراد کی مصدقہ تعداد ایک لاکھ بیاسی ہزار سے زائد ہو چکی ہے جبکہ ایک ہزار پانچ سو پچاس سے زائد افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ریاض حکومت نے بیرون ملک سے آنے والے غیر ملکیوں کے لیے حج پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ ملک میں موجود سبھی عازمین حج کا پہلے کورونا ٹیسٹ کیا جائے گا اور پھر انہیں مکہ جانے کی اجازت دی جائے گی۔ اس کے بعد وہ یہ فریضہ انجام دینے سے قبل مکہ میں قرنطینہ میں بھی رہیں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید