1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مکھڑا چن ورگا‘ اور ’دل دا جانی‘ بھی رخصت ہو گیا

وقار مصطفیٰ، لاہور25 فروری 2016

پاکستانی سینما اور ٹی وی اداکار حبیب الرحمان طویل علالت کے بعد اکیاسی سال کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ ریاست پٹیالا میں پیدا ہونے والے حبیب کا خاندان تقسیم ہند کے بعد پاکستانی پنجاب کے شہر گوجرانوالا منتقل ہوگیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1I1c1
Pakistan Schauspieler Habib
ان کی پنجابی فلموں میں دل دا جانی، چن مکھنا، چن ویر، ٹیکسی ڈرائیور اور مُکھڑا چَن ورگا قابل ذکر ہیںتصویر: Privat

حادثاتی طور پر اداکار بننے والے اس خوبرو اداکار نے کئی سالوں تک فلمی دنیا پر راج کیا۔ ماضی کے شہرت یافتہ یہ اداکار دماغ کی شریان پھٹنے کے باعث لاہور کے ایک نجی اسپتال میں کئی دنوں سے زیر علاج تھے۔

انیس سو پینتیس میں غیر منقسم ہندوستان کی ریاست پٹیالا میں پیدا ہونے والے حبیب کا خاندان تقسیم ہند کے موقع پر پاکستانی پنجاب کے شہر گوجرانوالا منتقل ہوگیا تھا۔ حبیب کے والد ریلوے میں ملازم تھے۔ ان کے دو بھائی فوج سے اعلیٰ عہدوں سے ریٹائر ہوئے۔ ایک اخباری انٹرویو میں حبیب نے بتایا تھا کہ وہ خود فضائیہ میں جانا چاہتے تھے لیکن گھٹنے کے کسی مسئلے کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔ وہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے کہ اداکار اسلم پرویز کے فلم چھوڑنے پر فلم کی شوٹنگ دیکھتے دیکھتے اس خوبرو طالب علم کو فلم کی پیش کش ہوگئی۔ پس و پیش کے بعد یوں حادثاتی طور پر وہ فلمی دنیا میں آگئے۔

Pakistan Schauspieler Habib
انہوں نےاپنی فنی زندگی کا آغاز 1956ء میں فلم ’لخت جگر‘ سے کیاتصویر: Privat

انہوں نےاپنی فنی زندگی کا آغاز 1956ء میں فلم ’لخت جگر‘ سے کیا۔ پہلا شاٹ ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ تھا۔ ان کا شمار پاکستان فلم انڈسٹری کے خوبصورت، رومانوی اور کثیر الجہتی فن کاروں میں ہوتا تھا۔ مجموعی طور پر 218 فلموں میں کام کیا جن میں 89 فلمیں اردو، 125 فلمیں پنجابی، ایک فلم سندھی اور ایک پشتو زبان میں بنائی گئی تھیں۔جب کہ دو فلمیں ڈبل ورژن تھیں۔

حبیب کی مشہور اردو فلموں میں شہرت، معصوم، ثریا، ایاز، اولاد، ماں کے آنسو، دل کے ٹکرے، دل اور دنیا، زہر عشق اور ہتھکڑی شامل ہیں۔ ان کی پنجابی فلموں میں دل دا جانی، چن مکھنا، چن ویر، ٹیکسی ڈرائیور اور مُکھڑا چَن ورگا قابل ذکر ہیں۔

انہیں 1958ء میں فلم آدمی اور 1961ء میں فلم سریا میں بہترین اداکاری پر نگار ایوارڈ سے نواز گیا جبکہ 2002ء میں اداکار حبیب کو نگار لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا گیا۔ انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

انہوں نے اردو، انگریزی اور فارسی میں ماسٹر کی ڈگریاں حاصل کر رکھی تھیں۔ بطور ہدایت کار اور پروڈیوسر بھی کام کیا مگر کام یاب نہ ہوسکے۔

حبیب نے سندھ کے معاشرے کی ایک بڑی لعنت کاروکاری کے خلاف فلم ’’باغی‘‘ بنائی۔ یہ فلم سندھ حکومت نے خرید کر ہر شہر اور گاؤں میں اس کی نمائش کی لیکن خرید کیسی۔ ایسی کہ حبیب ہی کے مطابق ان کو ایک پیسہ نہ ملا۔

غلام محی الدین جنہوں نے اس فلم میں اداکاری کی تھی، نے حبیب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ورسٹائیل اداکار تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کا افسوس ہے مگر انہیں علم نہیں تھا کہ حبیب کو حکومت نے فلم کے لیے پیسے نہیں دیے۔

Pakistan Schauspieler Habib
حبیب دماغ کی شریان پھٹنے سے دو روز پہلے تک ایک ٹی وی سیریل لمبی جدائی میں کام کر رہے تھےتصویر: Privat

حبیب دماغ کی شریان پھٹنے سے دو روز پہلے تک ایک ٹی وی سیریل لمبی جدائی میں کام کر رہے تھے۔ ایک ٹیلی وژن ڈرامے نوٹنکی میں حبیب نے تھیٹر مالک کا کردار ادا کیا تھا۔ اسی ڈرامے میں گلوکار کا کردار نبھانے والے اداکار سعادت علی خان کے مطابق حبیب سے بہت سیکھنے کو ملا۔ وہ بہت اچھے فن کار تو تھے ہی، اچھے انسان بھی تھے، محبت بھرا دل رکھتے تھے۔

انہوں نے دو شادیاں کیں۔ دوسری شادی ماضی کی نامور اداکارہ نغمہ سے ہوئی۔ تاہم یہ شادی طلاق پر منتج ہوئی۔

سعادت کا کہنا ہے کہ نغمہ سے یوں تو علیحدگی ہو چکی تھی مگر وہ اس ڈرامے میں حبیب کی بیگم کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ انہی کی موجودگی میں حبیب نے انہیں بتایا کہ ایک فلم میں نغمہ بیگم سے نور جہاں کا گایا گانا صحیح طور سے پکچرائز نہیں ہو پا رہا تھا تو حبیب صاحب نے خود اس گانے پر اداکاری کر کے انہیں بتایا کہ انہیں کیسے اس گانے کو نبھانا ہے۔

سعادت نے بتایا کہ ان کے والد استاد تصدق علی خان ہی کی دھن میں ریڈیو کے لیے ترتیب دیے گئے نغمے ’کیوں دور دور رہندے او حضور میرے کولوں‘ کو فلم میں حبیب صاحب اور نغمہ بیگم پر فلمایا گیا تھا۔

نغمہ سے حبیب کی ایک بیٹی ہیں، جب کہ پہلی بیوی سے ان کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔