1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين بچوں کی آمد، جرمن اسکولوں کے ليے نئے چيلنجز

عاصم سليم14 اکتوبر 2015

فادی اور فاديہ نو سالہ جڑواں بہن بھائی ہيں، جنہوں نےگزشتہ ماہ ہی برلن ميں اسکول جانا شروع کيا لیکن ان دونوں کو جرمن زبان کا ايک لفظ تک نہيں آتا۔ يہ صورتحال اسکول انتظاميہ کو درپیش ايک اہم مسئلے کی نشاندہی کرتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Gnpu
تصویر: SchlaU-Schule München

کئی اندازوں کے مطابق رواں سال کے اختتام تک جرمنی پہنچنے والے مہاجرين کی تعداد ايک ملين تک پہنچ سکتی ہے۔ ان جڑواں بہن بھائی کا شمار ان قريب چار لاکھ بچوں ميں ہوتا ہے، جو مہاجرين کی آمد کے ساتھ اب جرمن اسکولوں ميں تعليم حاصل کرنا شروع کر رہے ہيں۔ رواں برس کے دوران جرمنی کے مختلف شہروں ميں اسکولوں کی طرف سے جرمن سکھانے کے ليے خصوصی کلاسوں کا انتظام کيا جاتا رہا ہے تاکہ فادی اور فاديہ جيسے بچوں کو زبان کی بنيادی تعليم دی جا سکے۔ يہ کورسز چھ سے آٹھ ماہ تک جاری رہتے ہيں اور پھر ہی کہيں جا کر بچے باقاعدہ کلاسوں کا حصہ بن سکتے ہيں۔

جرمنی ميں گزشتہ ماہ اسکولوں کے نئے سال کا آغاز ہوا۔ برلن کے اسکولوں ميں ايسے بچوں کا جنہيں جرمن زبان نہیں آتی، تناسب 70 فيصد بڑھ گيا ہے۔ دارالحکومت ميں اب قريب پانچ ہزار ايسے بچوں کے ليے 478 خصوصی کلاسوں کا انتظام کيا گيا ہے۔

Flüchtlingskind
تصویر: dpa

فادی اور فاديہ کا اسکول مہاجرين کے اس کيمپ کے قريب ہی واقع ہے، جس ميں وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ رہتے ہيں۔ وہ آئندہ چند ہفتوں ميں اپنی جرمن زبان ميں بہتری کے ليے ايک اور کلاس شروع کرنے والے ہيں۔ يہ صورتحال مہاجرين خاندانوں کے بچوں کے ليے جرمن زبان سے متعلق کلاسوں کی بے انتہا مانگ کی نشاندہی کرتی ہے۔

نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس کو بچوں کے اصل نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ايسی ايک کلاس ميں جانے کی اجازت ملی۔ کلاس ميں گيارہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 20 بچے موجود تھے۔ چھ تا بارہ سالہ ان بچوں کا تعلق شام، مصر، عراق، ليبيا، بوسنيا، سربيا، بلغاريہ، کوريا، گھانا اور امريکا سے ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ تمام بچے مہاجرت کے پس منظر سے نہيں، ان ميں ايسے بچے بھی شامل ہيں جن کے والدين ملازمت کے سلسلے ميں جرمنی آئے ہيں۔

اس اسکول کی پرنسپل ارينا ويزمان نے ايک اور مسئلے کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے بتايا، ’’ان ميں سے کچھ بچوں نے کبھی اسکول اندر سے ديکھا ہی نہيں کيونکہ يہ کافی وقت بم دھماکوں سے بچنے کے ليے تہہ خانوں ميں گزارتے آئے ہيں۔‘‘ ويزمان کے بقول ان کی اور ديگر اساتذہ کی کوشش ہے کہ بچوں کو جلد از جلد معمول کی زندگی ميں لايا جائے۔

ان بچوں کے ماضی کے سبب کئی ديگر مسائل بھی موجود ہيں۔ اس گروپ ميں ايک شامی بچہ بھی ہے، جو کلاس کی سرگرميوں ميں زيادہ حصہ نہيں ليتا۔ يہ بچہ اکثر اوقات مٹی سے چھوٹی چھوٹی لاشيں بناتا رہتا ہے۔ اسکول کی پرنسپل نے بتايا کہ ايک بچہ ايسا بھی تھا جو اکثر اپنی ڈيسک کے نيچے چھپ کر خوف سے چلايا کرتا تھا۔

UNICEF کی جانب سے گزشتہ ماہ جاری کردہ ايک رپورٹ کے مطابق مشرق وسطٰی اور شمالی افريقہ کے کئی ممالک ميں خانہ جنگی کے سبب قريب 13 ملين بچے اسکول جانے اور بنيادی تعليم حاصل کرنے سے محروم ہيں۔ متاثرين ميں شامی بچے سر فہرست ہيں۔