1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين خاندانوں کو کھانے کی دعوت، جرمنی ميں ايک نئی مہم

Greta Hamann / عاصم سليم13 نومبر 2015

’کھانا جب کسی کے ساتھ بانٹ کر کھايا جائے، تو اس کی لذت دوبالا ہو جاتی ہے۔‘ يہ پيغام ہے ايک ايسے جرمن ادارے کا، جو مقامی جرمن خاندانوں اور مہاجرين کے خاندانوں کو تبادلہ خيال کے ليے کھانے کی دعوت پر مدعو کرنا چاہتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1H5Be
تصویر: DW/G. Hamann

کھانے کی ميز پر پڑا پاستا کافی مزيدار لگ رہا ہے۔ اوون سے نکلنے کے فوری بعد اس ميں سے بھاپ نکل رہی تھی ليکن اب کھانا تھوڑا ٹھنڈا ہو چکا ہے۔ قيمے اور ٹماٹر کے شوربے سے بنا مزيدار لزانيہ بھی ابھی تک يوں ہی ميز پر پڑا ہے۔ کسی نے ابھی تک کھانے کو ہاتھ تک نہيں لگايا۔ دراصل شامی شہری نڈال ويسے تو اپنے ميزبانوں سے اپنا تعارف کرا چکا ہے ليکن گفتگو اس قدر دلچسپ ہو رہی ہے کہ کسی کی توجہ کھانے کی طرف ہے ہی نہيں۔

عشائيے کا يہ اہتمام جرمن ادارے ’اش لاڈے ڈش آئن‘ يعنی ميں تمہيں کھانے کی دعوت ديتا ہوں، کی زير انتظام کيا گيا ہے۔ اس مہم کے ذريعے ادارے کی کوشش ہے کہ جرمن خاندان ایسے تارکین وطن خاندانوں کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کريں اور بات چيت کے ذريعے ايک دوسرے کو سمجھيں۔

ميزبان نينا اور اس کے دوستوں کے پاس بہت سے سوالات ہيں۔ وہ قريب ڈيڑھ برس سے جرمنی ميں مقيم نڈال سے متعدد سوالات کرنا چاہتے ہيں۔ اور نڈال بھی اپنی ٹوٹی پھوٹی جرمن ميں ان کے سوالوں کے جوابات دينے کے ليے بے تاب نظر آتا ہے۔ ’’ميں خوش ہوں کہ ميں آپ کے کام آ سکتا ہوں‘‘، یہ ہتے ہوئے وہ اپنے بيگ سے ايک نقشہ نکالتا ہے اور اسے کھول کر ميز پر بچھا ديتا ہے۔

نڈال شام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتا ہے، ’’يہ حمص ہے، جہاں ميں تعليم حاصل کر رہا تھا۔‘‘ جب ’مسئلہ‘ يعنی شامی خانہ جنگی شروع ہوئی اور شہر تک پہنچی، تو ميں سب سے پہلے حلب چلا گيا۔‘‘ ليکن اس کی پڑھائی کے اختتام سے قبل ہی جنگ اس قدر پھيل چکی تھی کہ نڈال کو يہ خوف محسوس ہونے لگا کہ شايد اسے فوج ميں بھرتی ہونے پر مجبور کر ديا جائے۔ وہ کہتا ہے، ’’ميں يہ جانتا تھا کہ اگر ميں فوج ميں شامل ہوا، تو يا تو ميں خود مارا جاؤں گا يا پھر مجھے دوسروں کو ہلاک کرنا ہو گا۔ ميں يہ نہيں کرنا چاہتا تھا۔‘‘

اس منصوبے کو شروع کرنے والی ماريا الچيوا
اس منصوبے کو شروع کرنے والی ماريا الچيواتصویر: Mariya Ilcheva

بعد ازاں نڈال نے يورپ تک پہنچنے کی اپنی داستان تفصيلی انداز ميں بيان کی۔ پہلے وہ ترکی گيا، وہاں سے الجزائر اور پھر وہاں سے ليبيا، جہاں اسے کچھ وقت قيد خانے ميں بھی گزارنا پڑا۔ تانيا اور نينا بڑی دلچسپی کے ساتھ نڈال کی کہانياں سن رہی تھيں۔ ظاہر ہے کسی عام کھانے کی دعوت پر ايسی آپ بيتی سننے کا موقع ذرا کم ہی ملتا ہے۔ پھر نڈال نے مزيد بتايا کہ وہ کس طرح ايک بحری جہاز پر بحيرہ روم پار کرتے ہوئے اٹلی گيا اور حلب چھوڑنے کے قريب ڈيڑھ ماہ بعد کہيں جا کر جرمنی پہنچا۔

ويسے تو نڈال کو کھانے کی دعوت پر بلانے والے چاروں افراد ہی مہاجرين سے متعلق ملازمتيں کرتے ہيں تاہم ان چاروں کے مقابلے ميں نڈال کی معلومات کافی زيادہ تھيں۔ وہ متعدد اداروں سے منسلک ہے اور جرمن شہر بون ميں ايک مترجم کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ وہ تو ايسے مقامات کی نشاندہی بھی کر سکتا ہے، جہاں پناہ گزين باقاعدگی سے ملتے ہيں۔ بون ہی سے تعلق رکھنے والے ان ميزبانوں ميں سے کسی کو بھی يہ توقع نہيں تھی کہ ايک انتيس سالہ شامی اسکول ٹيچر انہيں ان ہی کے شہر کے بارے ميں کتنا کچھ بتا سکے گا۔

کھانے کے بعد وقت ہوا کچھ ميٹھے کا۔ ونيلا آئس کريم کے ساتھ رسبيری کے چھوٹے چھوٹے کيک مہمانوں کے آگے رکھ ديے گئے ہيں اور ماحول اب کافی پر سکون اور دوستانہ ہے۔ اب بھی کھانا پينا ترجيح نہيں، بون ميں رہنے والے نينا اور اس کے ساتھيوں کے پاس اب بھی کتنے ہی سوالات ہيں۔ وہ نڈال سے پوچھنا چاہتے ہيں کہ شام ميں جنگ کيوں جاری ہے؟ کيا جرمن فوج کو وہاں کارروائی کرنی چاہيے؟ شامی صدر بشار الاسد کيوں اقتدار نہيں چھوڑتے؟ اور کيا وہ شامی شہری جو آج اپنا ملک چھوڑ رہے ہيں، ايک نہ ايک دن لوٹ کر شام کی تعمير نو کا حصہ بنيں گے؟

ايسی مہميں مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ايک دوسرے کی ثقافتوں، طرز زندگی اور متعدد معاملات سمجھنے ميں مدد فراہم کرتی ہيں۔ ’اش لاڈے ڈش آئن‘ جرمن شہريوں اور پناہ گزينوں کو قريب لانے کی ايسی ہی ايک کوشش ہے۔