1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مہاجرين دوست‘ پاليسی: جرمنی اور ميرکل کے پاکستان ميں چرچے

عاصم سليم13 اکتوبر 2015

مہاجرين سے متعلق اپنی پاليسی پر جرمن چانسلر انگيلا ميرکل اندرون ملک کسی حد تک غير مقبول ضرور ہو رہی ہيں البتہ يہی پاليسی قدامت پسند پاکستانی معاشرے ميں اُن کی مقبوليت کا سبب بن رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GnCw
تصویر: privat

[No title]

’ہم يہ کر سکتے ہيں۔‘ مہاجرين سے متعلق پاليسی کے ناقدين اور تحفظات رکھنے والے تمام جرمن شہريوں کے لیے چانسلر ميرکل کا پيغام کافی واضح تھا۔ انہوں نے بات پچھلے ہفتے ايک مقامی ٹيلی وژن کو ديے گئے انٹرويو کے دوران کہی۔ اسی انٹرويو کے دوران ميرکل نے دہرايا کہ جرمنی مہاجرين کے ليے اپنے دروازے بند نہيں کرے گا۔

ليکن اس پيش رفت کا ايک اور پہلو بھی ہے۔ پناہ گزينوں کے کيمپوں ميں فسادات، عورتوں کے ساتھ زيادتی کے واقعات، بڑھتے ہوئے اخراجات اور دائيں بازو کے چند گروپوں کی مخالفت کے سبب جرمنی ميں مہاجرين سے متعلق پاليسی کے سبب چانسلر ميرکل کی داخلی سطح پر مقبوليت دن بدن کم بھی ہو رہی ہے۔

يورپ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد ان دنوں مہاجرين کے حوالے سے اپنی تاريخ کے بد ترين بحران کا سامنا ہے۔ يورپی يونين کے رکن ممالک ترکی اور يونان کے رستے آنے والے لاکھوں مہاجرين کو خطے ميں سياسی پناہ دينے کے معاملے پر متخلف آراء کے حامل ہيں۔ اکثريتی مہاجرين کی اولين ترجيح يہی ہے کہ وہ جرمنی ميں سياسی پناہ حاصل کر سکيں۔ اگرچہ چند دوسرے ملکوں کی نسبت جرمن حکومت مہاجرين کے ليے بہتر بندوبست کر رہی ہے تاہم مہاجرين کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے اس حوالے سے تحفظات بھی بڑھ رہے ہيں کہ آيا جرمنی ميں اتنے زيادہ مہاجرين کو پناہ دينے کی گنجائش ہے؟

Flüchtlinge an der österreichisch-deutschen Grenze
امکان ہے کہ رواں سال کے اختتام تک جرمنی پہنچنے والے مہاجرين کی تعداد آٹھ لاکھ تک پہنچ جائے گیتصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel

يورپ ميں مہاجرين کے بحران کے بارے ميں ڈی ڈبليو کے خصوصی پيج پر باقاعدگی سے آرٹيکلز شائع کيے جا رہے ہيں، جن ميں اس مسئلے کے حوالے سے معلومات فراہم کی جاتی ہيں۔ ان آرٹيکلز اور ڈی ڈبليو اردو کے فيس بک پيج پر واضح طور پر يہ ديکھا جا سکتا ہے کہ مہاجرين سے متعلق بحران ميں جرمنی کے کردار کو پاکستان ميں کافی مقبوليت حاصل ہو رہی ہے۔

فيس بک پيج پر شائع کردہ ايک آرٹيکل پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان سے محمد عمير حيدر بٹ لکھتے ہيں، ’’جرمن قوم نے جس طرح مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘‘

اسی طرح عارف نور کا کہنا ہے، ’’جرمن چانسلر نے انسانیت سکھانے والے دوغلے انسانوں کے منه پر تھپڑ مار دیا۔ ميں ان کو سلوٹ کرتا ہوں۔‘‘

عاشق حسين اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہيں کہ وہ جرمن قوم کو سلوٹ کرتے ہیں۔ انسانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور آدم کی اولاد ہونے کے ناتے وہ جرمنوں کو بہن بھائیوں کا درجہ دیتے ہیں۔

ڈی ڈبليو نے اس حوالے سے نامور پاکستانی صحافی افتخار احمد سے بات چيت کی اور يہ جاننے کی کوشش کہ کيا واقعی مہاجرين کے بحران کے تناظر ميں ان دنوں پاکستان ميں جرمنی اور چانسلر انگيلا ميرکل کی تعريفوں کے پل باندھے جا رہے ہيں؟

افتخار احمد: بالکل اس کا تذکرہ سوشل ميڈيا پر بھی ہوا ہے اور لکھنے والوں نے اپنے کالموں ميں بھی لکھا ہے۔ جو رويہ جرمنی کی قوم اور سول سوسائٹی کا رہا ہے، اسے پاکستان ميں لوگوں نے سراہا ہے۔ ہمارے ملک ميں ابھی تک يہ بحث چل رہی ہے کہ سعودی عرب وغيرہ جن کی زيادہ ذمہ داری بنتی تھی، انہوں نے اپنے آپ کو اس ذمہ داری سے دور رکھا۔ يہاں جرمنی اور جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کی تعريف کی جاتی ہے کہ انہوں نے بالکل صحيح سمت ميں فيصلہ کيا ہے۔

ڈی ڈبليو : ايک ایسے معاشرے ميں جہاں کسی مغربی رہنما کو پذيرائی ملنا آسان نہیں، کيا وجہ ہے کہ وہاں عوام جرمن رہنما اور جرمن عوام کے ليے مثبت رائے کے حامل ہو تے جا رہے ہيں؟

افتخار احمد : ميں اس کی ايک وجہ یہ ديکھتا ہوں، جو ظلم ہوا ہےاور جو ظلم بين الاقوامی ميڈيا کے ذريعے پاکستانی قوم کی نظروں سے گزرا ہے وہ بہت خوفناک ہے۔ اگرچہ ہم خود ايک بہت ہی وحشت ناک دور سے گزر رہے ہيں، ہمارے ملک ميں بھی لوگوں کی گردنيں کاٹی جاتی ہيں اور ان سے فٹ بال کھيلی جاتی ہے۔ ليکن اُس ترک بچے کی لاش کی تصوير نے يہاں لوگوں کو ہلا کر رکھ ديا ہے۔ اور جب لوگوں کو پتہ لگا کہ ايک ملک نے اپنے دروازے کھولے ہيں اور بالخصوص جب لوگوں نے يہ ديکھا کہ جرمن شہری سڑکوں پر مہاجرين کے ليے خوراک لے کر کھڑے ہيں، تو يہ لوگوں کے ليے حيرت انگير بات تھی۔ يہ در اصل وہ انسانيت ہے جس کی بات کتابوں اور ليکچروں ميں کی جاتی ہے۔ عملی طور پر تو يہی ثبوت ہوا نہ کہ جب آپ بے گھر ہو جائيں، آپ کے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہ ہو، تو اس وقت کوئی آپ کو بلائے اور آپ کی مدد کرے۔ اسی کو پاکستان ميں زيادہ پسند کيا گيا۔

اس کی ايک اور وجہ يہ بھی ہے کہ پاکستان ميں لوگ ابھی تک سن 1947 کی ہجرت کو بھولے نہيں ہيں۔ جب بھی وہ کسی اور کی طرف سے ايسا کوئی عمل ديکھتے ہيں، پيار کا، محبت کا، دوستی کا اور کسی کو جگہ دينے کا، تو ان کو وہ سب ياد آ جاتا ہے۔

ڈی ڈبليو : کچھ پاکستانی اور افغان شہری بھی ان دنوں جرمنی ميں پناہ کے متلاشی ہيں۔ اُن کے مستقبل کے امکانات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

افتخار احمد : ميں يہ کہنا چاہوں گا کہ اولين ترجيح شامی متاثرين کی ہے، وہ بھلا مسلمان ہوں يا نہ ہوں ان کی بطور انسان جس طرح مدد کی جا رہی ہے، ميں اس کی تعريف کرتا ہوں۔ مقابلتا شايد ميں پاکستان اور افغانستان کے مہاجرين کو يورپ ميں پناہ دينے کے حق ميں نہ ہوں کيونکہ شامی لوگ در بدر ٹھوکريں کھا رہے ہيں اور ايسے لوگوں کو يورپ ميں پناہ دينا بہت بڑی بات ہے۔

Deutschland Symbolbild Flüchtlinge Gewalt gegen Frauen und Kinder
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache

ڈی ڈبليو : مہاجرين کی آمد سے جرمن معاشرے پر کيا اثرات مرتب ہوں گے؟

حاليہ واقعات کے تناظر ميں يورپ ميں جو خدشہ ہے کہ مسلمان يورپی معاشرے پر حاوی ہو جائيں گے اور ان کی تعداد بہت زيادہ ہو جائے گی، ايسے خدشات کو بھی سامنے رکھنا چاہيے۔ جو مسلمان وہاں پہنچ رہے ہيں، انہيں بھی خيال رکھنا چاہيے کہ وہ وہاں دوست کے طور پر رہيں وہ اپنی نظرياتی جنگ کو فروغ دينے کی کوشش نہ کريں۔

يہ امر اہم ہے کہ فيس بک پر اپنی رائے لکھنے والے تمام افراد جرمنی کے کردار کو مثبت انداز ميں نہيں ديکھتے۔ مثال کے طور پر مغل عاطف لکھتے ہيں کہ جرمنی مہاجرين کو خوش آمديد صرف اس ليے کر رہا ہے کيونکہ يہاں کی معيشت کو افرادی قوت درکار ہے۔ عاطف کے بقول يہ مہاجرين کم تنخواہوں پر وہاں دن رات کام کريں گے۔