1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی مہاجرين سے متعلق پاليسی برقرار رکھے گا، ميرکل

عاصم سليم14 نومبر 2015

يورپی ملک جرمنی کی چانسلر انگيلا ميرکل نے مہاجرين سے متعلق اپنی پاليسی کا ايک مرتبہ پھر پُر زور دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پناہ گزينوں کے ليے ’کھلے دل اور کھلے دروازوں‘ کی پاليسی پر عملدرآمد جاری رکھيں گی۔

https://p.dw.com/p/1H5hX
تصویر: picture alliance/dpa/J. Roehr

جرمنی کے ايک پبلک نشرياتی ادارے ZDF پر انٹرويو کے آغاز ميں ميرکل سے يہ سوال پوچھا گيا کہ کيا وہ پاليسی پر عملدرآمد کے ليے سياسی طاقت کھو چکی ہيں تو وہ مسکرا اٹھيں۔ انگيلا ميرکل نے جواب ديا، ’’صورتحال وفاقی چانسلر اور وفاقی حکومت کے قابو ميں ہے۔‘‘

جرمن چانسلر نے تاہم اپنی گفتگو ميں تسليم کيا کہ يورپی يونين اور جرمنی کو درپيش پناہ گزينوں کا بحران ايک بڑا چيلنج ہے۔ انہوں نے البتہ جرمن عوام سے اپيل کی کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کريں اور اس بحران سے نمٹنے کے ليے چانسلر نے جو لائحہ عمل اختيار کيا ہے اس پر اعتماد رکھيں۔ ميرکل نے کہا، ’’ميں وہ پہلی چانسلر نہيں ہوں، جسے کسی معاملے پر مخالفت کا سامنا ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے قدامت پسند دھڑے ميں شامل سياستدانوں کی طرف سے بے انتہا دباؤ کے باوجود جرمنی پہنچنے والے تارکين وطن کی حد مقرر کرنے کو اب بھی خارج از امکان قرار ديا ہے۔

اپنے انٹرويو ميں جرمن چانسلر نے اس تاثر کو بھی غلط قرار ديا کہ مہاجرين کے ليے ان کی نرم پاليسی پر کرسچین ڈيموکريٹس اور کرسچین سوشل يونين کے سیاستدانوں کی تنقيد کے سبب بطور چانسلر ان کی پوزيشن کمزور ہو سکتی ہے۔ ميرکل کے بقول اس معاملے ميں چانسلر پر اعتماد داؤ پر نہيں لگا ہے۔

جرمن چانسلر نے تاہم اپنی گفتگو ميں تسليم کيا کہ يورپی يونين اور جرمنی کو درپيش پناہ گزينوں کا بحران ايک بڑا چيلنج ہے
جرمن چانسلر نے تاہم اپنی گفتگو ميں تسليم کيا کہ يورپی يونين اور جرمنی کو درپيش پناہ گزينوں کا بحران ايک بڑا چيلنج ہےتصویر: picture alliance/dpa/J. Roehr

چانسلر ميرکل نے اس انٹرويو ميں شرکت ايک ايسے وقت کی، جب اسی ہفتے برلن حکومت ڈبلن ريگوليشن دوبارہ نافض کرنے کا فيصلہ کر چکی ہے۔ اس قانون کے تحت درخواست دہندگان کی سياسی پناہ کی کارروائی اسی يورپی ملک ميں کی جائے گی، جہاں متعلقہ تارکين وطن کا سب سے پہلے اندراج ہوا ہو يا جہاں انہوں نے سب سے پہلے قدم رکھا ہو۔ ميرکل کے بقول انہوں نے اس قانون پر عملدرآمد وقتی طور پر اس ليے رد کيا تھا تاکہ شامی خانہ جنگی سے پناہ کے ليے يورپ آنے والوں کو موقع مل سکے۔ اگرچہ عالمی سطح پر برلن حکومت کے اس اقدام کو کافی پذيرائی حاصل ہوئی تاہم داخلی سطح پر جرمن عوام ميں اسی سبب بے چينی کا عنصر وقت کے ساتھ مسلسل بڑھتا بھی رہا۔

قبل ازيں جمعے کے روز جرمن چانسلر نے سياسی پناہ کے قوانين ميں سختی کا بھی دفاع کيا۔ ان کے مطابق قوانين ميں سختی اس ليے کی جا رہی ہے تاکہ يورپ ميں پناہ گزينوں کی تقسيم منصفانہ بنيادوں پر ممکن ہو سکے۔ انہوں نے کہا، ’’يورپی يونين کی بيرونی سرحدوں کے حامل ممالک پر ان کے حصے سے زيادہ يا کم بوجھ نہيں پڑنا چاہيے۔‘‘